Urdu News

اسٹیچو آف یونٹی میں مشن لائف کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کا خطاب

گجرات کے اسٹیچو آف یونٹی میں مشن لائف

گجرات  کے اسٹیچو آف یونٹی میں مشن لائف کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا مت

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گٹیرس جی، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، ہندوستان کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر جی، ملک و بیرون ملک کے تمام معززین، خواتین و حضرات، اس  قابل فخر  زمین پر آپ سب کا پرتپاک خیر مقدم ہے ۔ انٹونیو گٹیرس جی  کے لیے ہندوستان دوسرے گھر کی طرح ہے۔ آپ نے اپنی جوانی میں کئی بار ہندوستان کا سفر بھی کیا۔ گوا کے ساتھ آپ کے خاندانی تعلقات بھی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں آج اپنے ہی خاندان کے ایک فرد کا گجرات میں استقبال کر رہا ہوں۔ انٹونیو گٹیرس     جی یہاں آنے کے لیے آپ کا بہت شکریہ، بہت بہت مبارکباد۔ مجھے خوشی ہے کہ مشن لائف کے آغاز کے وقت  سے بہت سے ممالک اس قرارداد سے وابستہ ہیں۔ اسٹیچو آف یونٹی

آندرے راجو ایلینا جی

میں فرانس کے صدر جناب  میکرون،برطانیہ کی  وزیر اعظم لز ٹرس،  گیانا کے صدر عرفان علی،  ارجنٹینا  کے صدر البرٹو فرنانڈیز، ماریشس کے وزیر اعظم پراوِند جگناتھ،  مڈغاسکر کے صدر آندرے راجو ایلینا جی ، نیپال کے وزیر اعظم شیر بہادر جی، مالدیپ کے بھائی صالح جی ، جارجیا کے وزیر اعظم ایراکلی گریباشویلی، ایسٹونیا کے وزیر اعظم کجا کلاس کا میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسٹیچو آف یونٹی

ساتھیوں،

جب معیارات بڑے ہوتے ہیں تو ریکارڈ بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ گجرات میں اس تقریب کا انعقاد بہت معنی رکھتا ہے۔ اور یہ بالکل موزوں ہے۔ گجرات ہندوستان کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے جس نے سب سے پہلے قابل تجدید توانائی اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے بہت سے قدم اٹھانا شروع کیے تھے۔  چاہے بات نہروں پر سولر پینل لگانے کی  ہو، یا قحط زدہ علاقوں میں پانی کی سطح کو بڑھانے کے لیے پانی کے تحفظ کی مہم ہو، گجرات ہمیشہ ایک طرح سے ایک رہنما کی شکل میں ،ایک  رجحان ساز  کی شکل میں رہا ہے۔

یہ تقریب ہمارے قومی فخر، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے  عظیم مجسمے

موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ایک مفروضہ بنا دیا گیا ہے کہ  گویا یہ صرف پالیسی سے متعلق معاملہ ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم اس مسئلے کو پالیسی کے ساتھ دیکھنا شروع کرتے ہیں، دانستہ یا نادانستہ ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ حکومت اس پر کچھ کرے گی۔ یا وہ سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی اداروں کو اس پر کوئی اقدام کرنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ حکومت، بین الاقوامی ادارے، ان کا کردار بڑا ہے، اور وہ اسے نبھانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ لیکن ہم سب دیکھ سکتے ہیں کہ اب اس مسئلے کی سنگینی بحثوں سے نکل چکی ہے اور آج دنیا کے کونے کونے میں، ہر گھر میں نظر آرہی ہے۔

سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لوگ اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں، ہم نے غیر متوقع آفات کے پیش نظر اس ضمنی اثر کو شدت سے جھیلا ہے۔ آج ہمارے گلیشیئر پگھل رہے ہیں، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ ہمارے دریا خشک ہو رہے ہیں، موسم غیر یقینی ہو رہا ہے۔ اور یہ تبدیلیاں لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں. کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو صرف پالیسی سازی کی سطح پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ لوگوں کو خود یہ احساس ہونے لگا ہے. کہ ایک فرد، ایک خاندان اور ایک کمیونٹی کے طور پر.، انہیں اس زمین کے لیے ، اس کرہ ارض کے لیے کچھ نہ کچھ . ذمہ داری اٹھانی چاہیے. اور خود سے بھی  کچھ کرنا چاہیے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں .

ان تمام سوالوں کا جواب مشن لائف میں پنہاں ہے۔مشن لائف کا منتر ہے

میں آپ کو دو بہت دلچسپ مثالیں دینا چاہتا ہوں. میں آپ کو ایک بہت سادہ سی بات بتانا چاہتا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ. اے سی کا درجہ حرارت 17 ڈگری  سیلسیس یا 18 ڈگری سیلسیس  پر رکھنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن اے سی کا درجہ حرارت اتنا کم کرنے کے. بعد یہ لوگ سونے کے وقت کمبل یا لحاف کا سہارا لیتے ہیں۔ اے سی کا  ہر ڈگری درجہ حرارت کو کم کرنا . ماحول پر  اتنا ہی منفی اثر ڈالنا ہے ۔ یعنی اگر ہم اپنی طرز زندگی کو. ٹھیک کر لیں تو ہم ماحولیات کے لیے بہت بڑے  مدد گار ثابت ہوں گے۔ یہاں میں لائف اسٹائل سے ایک اور مثال بتانا چاہتا ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں، کچھ لوگ 5 کلومیٹر فی لیٹر کی .اوسط گاڑی کے ساتھ جم جاتے ہیں. اور جم میں ٹریڈ مل  پر پسینہ بہانے کی کوشش کرتے ہیں۔

Recommended