اورنگ آباد ہماری نظر میں
اورنگ آباد مہاراشٹر کا ایک تاریخی شہر ہے۔ یہ شہر تہذیب و تمدن کا گہوارہ بھی ہے۔ یہ ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کا شہر ہے۔ اس شہر سے راقم السطور کا بڑا گہرا رشتہ قائم ہو چکا ہے۔ شہر اپنا لگتا ہے، شہر والے اپنے لگتے ہیں۔ اب اورنگ آباد ”اپُن“ کے لئے وطن ثانی ہے۔ اردو زبان اور اردو شعر و ادب کے حوالے سے بھی یہ شہر زندہ ہے۔ دولت آباد، خلد آباد، ایلورا اور اجنتا دیکھنے کی خواہش رکھنے والے اسی شہر اورنگ آباد کو عموماً پہلے اپنا مسکن بناتے ہیں۔ شہر اورنگ آباد کی تاریخ اور جغرافیہ سے ابھی بحث نہیں۔ ابھی اورنگ آباد کی صدیوں پرانی علمی و ادبی تاریخ سے بھی بحث مقصود نہیں۔ ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کو پڑھتے ہوئے آپ نے بارہا اورنگ آباد کی تاریخ پڑھ لی ہے۔ آئیں آپ کو میں ایک نیا، تازہ اور ذرا مختلف اورنگ آباد دکھاتا ہوں۔
راقم السطور کا وطن ثانی
اورنگ آباد کا ذکرہو تو میں آغاز ڈاکٹر قاضی نوید صدیقی کے نام سے کرتا ہوں۔ پیارے دوست برادر عزیز ڈاکٹر قاضی نوید احمد صدیقی نے ہی اورنگ آباد شہر اور اہل اورنگ آباد سے میرا تعارف کرایا ہے۔ ڈاکٹر قاضی نوید کی وجہ سے ہی اورنگ آباد اب میرا وطن ثانی ہے۔ قاضی نوید کی وجہ سے ہی پروفیسر سلیم محی الدین مجھ پہ اپنی محبتیں لٹاتے ہیں۔ قاضی نوید کی وجہ سے ہی سید فیصل احمد، فیاض فاروقی اور پرویز اسلم جیسے محبت کرنے والے دوست ملے۔ نوید کی وجہ سے ہی پروفیسر ارتکاز افضل جیسی نابغہ روزگار شخصیت کی صحبتوں میں بیٹھنے کا موقعہ ملا۔ارتکاز افضل کے بارے میں سوچتے ہوئے اکثر یہ خیال آتا ہے کہ جو کچھ کہا تو تیرا حسن ہو گیا محدود۔بلا کی ذہین، خوبصورت، خوش لباس، خوش مزاج، خوش کلام اور خوش اندام شخصیت ہے پروفیسر ارتکاز افضل کی۔ متاثر کرنے والی شخصیت۔ انگریزی میں سوچنے اور اردو میں بولنے والی شخصیت۔ انھیں کے ساتھ پروفیسر انتخاب حمید کی گل افشانی گفتار بھی یاد ہے۔ سلیم محی الدین صاحب نے بہت بڑے تاجر بھائی رفیق صاحب سے ایسا تعارف کرایا کہ وہ جان جھڑکتے ہیں۔ بڑے پیارے انسان بھائی سید اطہر احمد کی محبتوں کا بھی جواب نہیں۔ نہ صرف اطہر بھائی بلکہ ان کی نصف بہتر خواجہ کوثر حیات صاحبہ بھی ہماری میزبانی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی ہیں۔
شاعروں ادیبوں کا اہم مرکز
اس شہر میں خان شمیم جیسے منفرد لب و لہجے کے شاعر سے بھی تعارف ہوا۔ یہیں ممتاز فکشن نگار نورالحسنین صاحب اور آواز کے جادوگر خان مقیم صاحبان سے تعارف ہوا اور ہم ان کی میزبانی سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ دیر رات نورالحسنین صاحب کے گھر چائے کی چسکیوں کے بعد آئس کریم کھانا اب تک یاد ہے۔ خان مقیم صاحب اپنے گھر پہ صبح کے آٹھ بجے ناشتے میں پچاس پلیٹیں سجا دینے کا ہنر جانتے ہیں۔ دیر شام اورنگ آباد ٹائمز کے دفتر میں محترم شکیب خسرو اورمحترم شعیب خسرو کی ضیافتیں بھی یاد ہیں۔ شہر کی ایک نامور خاتون ڈاکٹر فردوس فاطمہ کی علمی ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ہماری ضیافت بھی یاد ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ کیسے اشفاق اقبال کسی سمینار میں فوٹو کھینچ رہے ہیں. وہیں خوش لباس صحافی شیخ اظہرالدین اپنی کیمرہ ٹیم کی ساتھ انٹرویو لے رہے ہیں. ڈاکٹر سید فیصل احمد اور ڈاکٹر فیاض فاروقی مجھے کافی پلانے لے جا رہے ہیں. اور ان تمام ضیافتوں میں برادر عزیز ڈاکٹر قاضی نوید کا رول ہوتا ہے۔ نوید جیسا پیارا دوست جسے مل جائے وہ خوش قسمت ہے۔
نئے پرانے چراغ
اس شہر میں یاروں نے ہمیں شاد ملک جیسے قابل نوجوان شاعر سے ملوایا تو یقین ہو گیا کہ اردو کی شمع بہت دیر تک روشن رہے گی۔ اس شہر میں جب میں محترم المقام اسلم مرزا سے ملا تو اندازہ ہوا کہ علمی معاملات میں دیانت داری سے کام کسے کہتے ہیں۔ ترجمہ نگاری کے فن سے کیسے واقف ہوں گے اگر اسلم مرزا کی صحبتوں میں نہیں بیٹھیں گے۔تنقید اور تحقیق کا حقیقی رشتہ تو تب ہی سمجھ میں آئے گا جب آپ اسلم مرزا جیسے عالموں کے قدموں میں بیٹھیں گے۔ اسی شہر میں قاضی نوید نے ڈاکٹر مظہر فاروقی جیسے صوفی صفت بڑے اسکالر اور معاملہ فہم اسکالر سے ملوایا۔ پرنسپل ڈاکٹر مظہر فاروقی اپنے خاص انداز گفتگو سے متاثر کرتے ہیں۔ پرانے چراغوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر اختر مرزا کا بھی ہے۔ وہ محترم اختر مرزا کی شخصیت ہے جس نے گزشتہ سفر میں خلد آباد کے سفر کویادگار بنا دیا۔ خلد آباد کے فارم ہاؤس میں نان قلیہ کی دعوت جناب اختر مرزا کی محبتوں کی یاد دلاتا رہتا ہے۔
رات، سنسان سڑک اور چائے
قاضی نوید بھی خوش قسمت ہیں کہ انھیں بہت چاہنے والے مخلص دوست ملے ہیں۔ یہ دوست سب زندہ دل ہیں۔ سب بر سر روزگار ہیں۔ اسمارٹ ہیں، محبت کرنے والے ہیں۔ ایک دوسرے کی ٹانگ بھی کھینچتے ہیں اور کان بھی۔ ایک دوسرے پر خوبصورت کمنٹس بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر محبت بھی لٹاتے ہیں۔ ڈاکٹر سید فیصل احمد، ڈاکٹر فیاض فاروقی اور ڈاکٹر شیخ پرویز اسلم وغیرہ ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں۔ اور یہ سب مل کر قاضی نوید پر جان چھڑکتے ہیں۔ ان کے ساتھ کبھی سمیر فاروق جیسے جیدنوجوان عالم بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ میں اورنگ آباد پہنچ جاتا ہوں تو سب دوست آدھی رات کو اپنی اپنی گاڑیوں میں نکل پڑتے ہیں خلد آباد کی طرف۔ راستے میں کاغذی پورہ میں لب سڑک ڈھابے پر آدھی رات کو چائے پینے کا الگ ہی لطف ہے۔
مشاعروں کا خطرناک سامع
شہر میں پروفیسر سلیم محی الدین کے علاوہ سید شاہ حسین نہری، پروفیسر ارتکاز افضل، خان شمیم، فاروق شمیم، جاوید ندا اور دیگر شعرا کو سننے کا موقعہ ملا۔ لیکن ایک شخص نے مشاعروں میں اپنے داد دینے کے جارحانہ انداز سے متاثر کیا۔ اچھے اشعار پر داد دینا اور خراب اشعار پر ہوٹ کرنا بھی مشاعروں کی روایت رہی ہے۔ فواد صدیقی ایک ایسے ہی سامع ہیں۔ جنھیں میں مشاعروں کا خطرناک سامع کہتا ہوں۔
جاوید ناصر، قمر اقبال اوربشر نواز کی یادوں کا شہر
یہ ولی اور سراج کا شہر ہے۔ استاد شاعر حضرت جے پی سعید کا شہر ہے۔ اس شہر سے نسبت حمایت علی شاعر اور شاذ تمکنت کو بھی ہے۔ جاوید ناصر، قمر اقبال اور بشر نواز کا شہر ہے۔ مرحوم فہیم صدیقی اور سلیم محی الدین کی گفتگو ہوتی تو میں خاموشی سے سنتا کہ یہ لوگ بشر نواز، جاوید ناصر اور قمر اقبال کی کن کن خوبیوں کو یاد کر رہے ہیں۔ جاوید ناصر نے خودکشی کر لی تھی۔ ان کی آخری رات کے درد و کرب کے گواہ ڈاکٹر سید فیصل احمد ہم سے بہت کچھ شیئر کرتے ہیں۔ بشر نواز کے داماد ڈاکٹر سہیل ذکی الدین سے بھی ہماری باتیں ہوتی رہیں اس شہر میں۔
مرزا بک ڈپو والے مراز جی
اس شہر میں ایک ”بے چین آتما“ ہے جس کا نام مرزا عبد القیوم ندوی ہے۔ یہ صاحب آل راؤنڈر ہیں۔ کبھی کسی کھیت میں ہل چلاتے نظر آتے ہیں تو کبھی کسی سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ مرزا بک ڈپو ایک ادبی مرکز ہے۔ شاعروں ادیبوں کے ملنے کی جگہ۔ سلیم محی الدین صاحب مجھے بھی ساتھ لے کر پہنچے۔ علم و ادب کی باتیں تو خوب ہوئیں ساتھ میں مرزا عبد القیوم ندوی صاحب نے بہت لذیذ کباب بھی کھلائے۔(جاری)
ڈاکٹر قاضی نوید صدیقی اپنے دوستوں کے ساتھ