Urdu News

ڈاکٹر سید تقی عابدی: ایک قلمی چہرہ

ممتاز ادیب، شاعر، نقاد، محقق و عاشق اردو ڈاکٹر سید تقی عابدی

قلمی چہرہ
ڈاکٹر سید تقی عابدی
تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی

علم کا دریا ہیں، سمندر ہیں، ندی ہیں، جی ہاں، سید تقی عابدی ہیں۔پیشے سے طبیب ہیں، بے مثال خطیب ہیں۔ اُردو کے چمن میں باد نسیم ہیں، دکن و دلی سے رشتہ ہے، کناڈا میں مقیم ہیں۔ بزم ِ مرثیہ میں نالۂ دلگیر ہیں، اُردو کے عالمی سفیر ہیں۔ ریاضت کے دھنی، معیار ضبط ہیں تقی عابدی۔ سکہ رائج الوقت ہیں تقی عابدی۔ اک کھلی کتاب ہیں تقی عابدی، تاریخ کا سنہری باب ہیں تقی عابدی۔ گویا ہوں تو رہ جائے تشنہ کوئی پہلو کب ان سے، یاران ِ نکتہ داں سیکھتے ہیں، گفتگو کا ڈھب ان سے۔ماہر اقبال ہیں، غالب شناس بھی ہیں۔ خوبصورت بھی ہیں، خوش لباس بھی ہیں۔ کبھی سوٹ تو کبھی شیروانی۔ دیار غیر میں اسلاف کی نشانی۔تقریر جیسے دریا کی روانی، ہوئے گویا تو موضوع پانی پانی۔ اگرچہ سفر ان کے لئے خسارہ ہے۔ مگر سرزمین ہند و پاک نے اکثر انھیں پکارا ہے۔ ہم نے جب پکارا، یہ اکثر چلے آئے، لیئے ہوئے اک علم کا دفتر چلے آئے۔ یہاں خلیل الرحمن جیسے یار گلفام رہتے ہیں۔ دل کے اک خاص گوشے میں خواجہ اکرام رہتے ہیں۔ یہ محبت کے مریضوں کا علاج خاص کرتے ہیں۔ یہ سارا کام بصد اخلاص کرتے ہیں۔۔ نظر رکھتے ہیں تحقیق کے سر اور تال پر۔ کتابیں لکھ چکے ہیں خسرو اور غالب و اقبال پر۔نظر کرم ہوئی جس پر، اک مکمل باب لکھ ڈالا۔ حالی و فراق و فیض پر کتاب لکھ ڈالا۔ گہری نظر رکھتے ہیں انشاء، رشید و دلگیر پر۔ کتابیں لکھ دی ہیں انیس و دبیر پر۔

صبا نے کان میں چپکے سے کہا

تقی کی شخصیت بڑی پہلو دار ہے۔ بقول ناصر عزیز یہ علم و فن کا سردار ہے۔ صبا نے کان میں چپکے سے کہا۔ یہ آدمی اطہر فاروقی کی محبت میں گرفتار ہے۔ نہ سیاست کی، نہ ظلم و جبر کی باتیں۔ گزشتہ سفر میں ہم نے سنی تھی بال مکند بے صبر کی باتیں۔ بے صبر کی باتوں سے ابھی قرار آیا تھا۔ کہ ہم نے نیرنگ سرحدی کا سراغ پایا تھا۔ پوچھا جناب نریش نے ہم کہاں تک پہنچے۔ کہا میں نے کہ ”تعمیر یاس“ سے”تعمیر بقا“ تک پہنچے۔ یاس سے بقا تک تعمیر اک نگر ہے۔ یہ تعمیر یاس سے تعمیر بقا کا سفر ہے۔
کبھی موجوں سے الجھے، کبھی دریا کنارے چلے گئے۔ادائے خاص سے زلف گیتی سنوارے چلے گئے۔معصومہ اور رویا آپ کی تصنیف خاص ہیں۔ رضا و مرتضیٰ بھی دل کے پاس ہیں۔ کئی ملکوں میں رہے، فکر عالم گیر رکھتے ہیں۔ دماغوں میں جہاں، دل میں یاد شبیر رکھتے ہیں۔ امریکہ و کناڈا، لندن و ایران کی باتیں۔ مگر دل کو گرماتی ہیں وہ ہندستان کی باتیں۔ یاد سید سبط نبی، یعنی اجداد کی یادیں۔ کبھی دلّی کبھی حیدر آباد کی یادیں۔ یہ یادیں اب بھی دل کو لبھاتی ہیں۔ کناڈا سے انھیں کھینچ لاتی ہیں۔

عالمی امن و آشتی کے نقیب ہیں

سید تقی عابدی بے مثال خطیب ہیں۔خوش فکر شاعر ہیں، ادیب ہیں۔ عالمی امن و آشتی کے نقیب ہیں۔ محسن ملک و قوم ہیں، حبیب ہیں۔ بقول خود ادب کے مریض اور صحت کے طبیب ہیں۔ ناقد ادب ہیں، محقق ہیں، مولف ہیں۔پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ہندی نژاد ہیں، رفیق ایران ہیں۔ فاتح دلی و فاتح تہران ہیں۔ ضخیم کلیات غالب فارسی کا اجرا تہران میں کیا۔اہل فارس کو حیران ایران میں کیا۔ حافظ و سعدی پہ لکھا اور قلم توڑ کے رکھ دیا۔ فلسفہئ رومی و جامی کا عرق نچوڑ کے رکھ دیا۔ اہل فارس ہیں فریفتہ اس ہندی نژاد پر۔ سیکڑوں شیریں مر مٹیں اس فرہاد پر۔ مگر یہ مریض دانائی عشق کے دریا کے کنارے کنارے چلا گیا۔ اپنی دھن میں بس زلف گیتی سنوارے چلا گیا۔ ریاضت کر رہے ہیں در عدنان پر بیٹھے۔ پہن کر چعغہئ علم و دانش، مسند عرفان پر بیٹھے۔حسین و جمیل تقی صاحب، خوش پوش، شکیل تقی صاحب، کتابوں کے رسیا، رات دن تپسیا، تحقیق و تنقید کے ستون، حصول علم کا جنون، کیا ہے کتنے ارمانوں کا خون، تب بنے ہیں ماہر علم و فنون۔

ڈاکٹر سید تقی عابدی: ایک قلمی چہرہ

بظاہر بہت سنجیدہ، اندر سے ظرافت کا پلندہ، لطائف کا ذخیرہئ خاص رکھتے ہیں۔ تبسم کا خزانہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ شوخی و ظرافت کا بہت اعلیٰ معیار رکھتے ہیں۔ دماغ تازہ اور دل بیمار رکھتے ہیں۔ دل میں نہ جانے کس کس کا پیار رکھتے ہیں۔ محبت میں کچھ نقد، کچھ ادھار رکھتے ہیں۔ ادائے بے نیازی ہے، مگر خوب خبر رکھتے ہیں۔ اچھے اور برے سب پہ نظر رکھتے ہیں۔ قصیدہ، مرثیہ اور مثنوی لکھ لیں، مگر غزلوں کو دل کے پاس رکھتے ہیں۔نہ جانے کیوں کچھ غزلوں کو اداس رکھتے ہیں۔ غزل سے بات کرتے ہیں، غزل کو پاس رکھتے ہیں۔ مگر کچھ ”کام“ بھی کرنا ہے، یہ احساس رکھتے ہیں۔
سید تقی عابدی کے فکر و فن پہ لکھا جا رہا ہے۔ ان کی طرز ادا، ان کے سخن پہ لکھا جا رہا ہے۔ کچھ احباب نے لکھا، کچھ خواتین نے لکھ دی۔ اک ضخیم کتاب رکن الدین نے لکھ دی۔ لکھنے  اور لکھانے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ دنیائے سخن پہ سید تقی عابدی کا رعب طاری ہے۔

نتیجۂ فکر: ڈاکٹر شفیع ایوب

ڈاکٹر سید تقی عابدی

Recommended