محمد وجیہ الدین: ممبئی کا وہ انگریزی صحافی جو اردو کا عاشق ہے
ٹائمز آف انڈیا سے وابستہ صحافی محمد وجیہ الدین بڑے کمال کے آدمی ہیں۔ ہندوستان میں انگریزی صحافت کے میدان میں گنتی کے مسلمان نظر آئیں گے۔ ان میں بھی جو لوگ تسلسل کے ساتھ اچھا لکھ رہے ہوں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جو لوگ ٹائمز آف انڈیاپڑھنے کے عادی ہیں وہ محمد وجیہ الدین سے خوب واقف ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلق سے جو رپورٹنگ ہوتی ہے اس سے سبھی واقف ہیں۔ ایسے میں جب کبھی آپ محمد وجیہ الدین کی کوئی اسٹوری پڑھتے ہیں تو ایک اطمنان بخش کیفیت سے گزرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی مسئلے پر لکھتے ہوئے وہ مسلمانوں کی طرف داری کرتے ہیں۔ ہاں وہ حقیقت ضرور بیان کر دیتے ہیں۔ ان کی صحافتی تحریروں میں بے باکی اور صداقت ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اس میں معاملے کی گہری سمجھ بھی نظر آتی ہے۔
دہلی میں ایک دلچسپ ملاقات
ہوا یوں کہ محمد وجیہ الدین صاحب کئی کام سمیٹے ممبئی سے دہلی آئے۔ ان میں ایک مخصوص دعوت بھی شامل تھی۔ نیوز مین آف انڈیا کے نام سے شہرت پانے والے شفیق الحسن کے اعزاز میں ممبر آف پارلیمنٹ کنور دانش علی نے دہلی کے پنڈارا روڈ پہ اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ چنندہ لوگ اس دعوت میں مدعو کئے گئے تھے جن میں وجیہ بھائی اور یہ خاکسار بھی شامل تھا۔اسی دعوت میں یہ طے پایا کہ ایک شام ہم انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں ملتے ہیں۔ کچھ باتیں ہوں گی۔ عصر بعد میں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر پہنچا تو وجیہ بھائی کوٹ پینٹ میں مسکراتے ہوئے ملے۔
اس محفل میں مشہور شاعر ایڈوکیٹ ناصر عزیز، معروف بزنس مین چودھری سلطان اقبال اور انجینئر خلیق ایوب بھی ہمارے ساتھ تھے۔ چائے اور پکوڑے کے ساتھ ملکی و ملی مسائل پہ گفتگو ہوئی۔ کچھ کرنے کا عزم کیا گیا۔
بستی حضرت نظام الدین اور وجیہ بھائی
بستی حضرت نظام الدین سے وجیہ الدین صاحب کی بہت یادیں وابستہ ہیں۔بہت پہلے وجیہ الدین صاحب سید حامد کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ ان دنوں بستی حضرت نظام الدین میں اکثر وجیہ بھائی نظر آتے تھے۔ جو لوگ دہلی کی بستی حضرت نظام الدین سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہاں تبلیغی جماعت کا مرکز ہے۔ ذرا آگے بڑھیں تو حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان اردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا غالب آرام فرما رہے ہیں۔ مزار غالب سے لگا ہوا غالب اکیڈمی ہے۔ مرکز تبلیغی جماعت، مزار غالب اور درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کی تثلیث پر محمد وجیہ الدین نے خوب لکھا ہے۔ غالب اکیڈمی کی بلڈنگ سے محض دو سو قدم کی دوری پر مشہور غالب کباب سینٹر بھی ہے۔ اس سفر میں ہماری دعوت پر وجیہ بھائی نے شوق سے کباب بھی کھائے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر ایک نئے زاویئے سے کتاب
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے اردو اور انگریزی میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ دیگر زبانوں میں بھی اچھی بری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر کتابیں لکھنے والوں میں کم فہم اور کم ظرف لوگ بھی تھے اور بڑے بڑے مفکر و عالم بھی تھے۔ ایسے میں محمد وجیہ الدین نے آخر ایسا کیا لکھ دیا کہ ان کی کتاب پر گفتگو کا سلسلہ بند نہیں ہو رہا ہے۔ کل 216صفحات پر مشتمل اس کتاب میں دس عنوانات قائم کئے گئے ہیں۔ کتاب ہارپر کولنس پبلشرز نے بڑے اہتمام سے شائع کی ہے۔ اس کتاب پر انگریزی اور اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی خوب تبصرے شائع ہو رہے ہیں۔
اس ملاقات میں برادر مکرم محمد وجیہ الدین نے بڑی محبت سے کتاب پیش کی۔ میں بھی اس کتاب پر بھرپور تبصرہ لکھوں گا۔ ابھی کتاب پڑھ رہا ہوں اور وجیہ بھائی کے طرز تحریر پر داد دے رہا ہوں۔
تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب