ہفت پہلوسلیم شیرازی
اردو زبان میںعام طور پر کسی بھی علمی و ادبی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا چلن عام ہے۔یہی وجہ ہےکہ ’یادرفتگاں‘ کے عنوان سے بہت سی کتابیں اور بےشمار مضامین موجود ہیں۔ جیتے جی تعریف میں ایک حرف نہ بولنے والے بھی بعد ازمرگ ہزاروں الفاط اور درجنوں صفحات سیاہ کردیتےہیں۔ جس کا صرف ایک فائدہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اس حقیقت کو جان لیتےہیںفلاں صاحب ان خوبیوں کے مالک تھے۔ اور ان کی خدمات ،ایثارو قربانی کی طویل داستان ہے وغیرہ ۔لیکن اس خشک مدح سرائی کا کیا فائدہ جس کی ممدوح کو کوئی خبر نہیں۔
سلیم شیرازی کی ہمہ جہت خدمات کا دل سے اعتراف
مقام مسرت ہےکہ عبدالواحد ہاشمی اور نفیس الرحمن سیوہاروی نے اپنے رول ماڈل جناب سلیم شیرازی کو ان کی حیات میں ہی یہ تحفہ دےدیا۔’’ہفت پہلو سلیم شیرازی‘‘ انہیں مرتبین کی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔جس میں اردوزبان و ادب کی مؤقر ہستیوں نے سلیم شیرازی کی ہمہ جہت خدمات کا دل سے اعتراف کرتےہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔مجھے یقین ہےکہ اس کتاب کی اشاعت سے سلیم شیرازی صاحب بھی بہت خوش ہوںگے۔بلاشبہ یہ کتاب ان کے کزور ہوتے جسم کے لئے کسی ’ٹانک ‘سے کم نہیں۔سلیم شیرازی کی صحافتی و ادبی خدمات کا دائرہ تقریبا پانچ دہائیوں پر محیط ہے مگر ان کی زندگی جدو جہد کی مثال ہے۔بقول جون الیا:
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے ۔ہم نے وہ زندگی گزاری ہے.
آخرمیں ’انتخاب کلام‘ کے تحت ان کی شاعری کو شامل کیا گیا ہے
سلیم شیرازی صاحب نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے کے علاوہ عمدہ شاعری بھی کی ہے۔یہاں بھی صحافت کی طرح ان کے تلامذہ میں کئی مشہور نام شامل ہیں۔یہ کتاب تین حصوں میں منقسم ہے جبکہ آخرمیں ’انتخاب کلام‘ کے تحت ان کی شاعری کو شامل کیا گیا ہے .جس میں حمدپاک،نعت النبیﷺ،غزلیں،نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔پہلا حصہ’’سلیم شیرازی:شخص و عکس ‘‘ کے نام سے ہے ۔اس میں پروفیسر اختر الواسع،پروفیسر منظر عباس،فاروق ارگلی،عظیم اختر،شکیل شمسی اورمعین شاداب سمیت ایک درجن سے زائد ادیب ،صحافی اور شاعروں نے مختلف جہتوں سے ان کے فکرو فن کا جائزہ لیتے ہوئےان سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔دوسرےحصہ’’ سلیم شیرازی:بحیثیت صحافی ‘‘ میں ظفر انور،جلال الدین اسلم ،طہٰ نسیم، ادے بھان کوشک اورمفیض جیلانی نے ان کی صحافتی خدمات پر اچھے مضامین لکھے ہیں۔
متجسس،مضطرب اور بیدار آنکھوں کا رشتہ
سلیم شیرازی :بحیثیت سخن ور‘‘میں حقانی القاسمی،فصیح اکمل ، شاہد انور، اشہر ہاشمی، چشمہ فاروقی،شاہین فاطمہ نقوی اوراجیت گاندھی وغیرہ نے ان کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ حقانی القاسمی لکھتےہیں کہ:’’سلیم شیرازی کے یہاں وہ تمام موضوعات ہیں جن سے ان کی متجسس،مضطرب اور بیدار آنکھوں کا رشتہ رہا ہے۔انہوںنے دشت صحافت میں بھی ایک عمر گزاری ہے ا سلئے ان کی شاعری میں صحافتی مخاطبہ بھی ہے اور شاید اسی صحافت نے انہیں اسرار حیات و کائنات کے انکشاف و اکتشاف کے ایک الگ طریق کار سے روبرو کرایا ہے ۔ جن سے ان کے شعری موضوعات کو نئی وسعت نصیب ہوئی ہے اور ان کا رنگ و آہنگ بھی تبدیل ہو ا ہے۔‘‘
تضادات و تناقضات کی بہت خوبصورت عکاسی
حقانی القاسمی نے سلیم شیرازی کے مختلف اشعار سے ان کی شعری افادیت کو سمجھنانے کو شش کی ہے۔وہ کہتےہیں کہ ثقافت و معاشرت کے اضطراب و انتشار،تضادات و تناقضات کی بہت خوبصورت عکاسی ان کی شاعری میں ملتی ہے۔
سارے رشتے ہوا لے گئی اور ہم
اپنے ہی شہر میں مہمان ہو گئے
یاد کے موسم نے کیا جادو کیا
ہجر کی شب بھی سہانی ہو گئی
سادگی لوگوں کو اب کے یوں سمٓ دینا
روشنی اگر مانگیں بستیاں جلادینا
کتاب کا ’پیش لفظ‘مشہورصحافی و سیاست داں م۔افضل کا ہے ۔اس میں انہوںنے سلیم شیرازی کے ہفت پہلو پر روشنی ڈالتےہوئے کہاکہ ’’یہ ان کی ادبی و صحافتی خدمات کا محاکمہ ہرگم نہیں ہے بلکہ ان کا اجمالی تعارف ہے‘‘۔ طباعت کی سبھی خوبیوں سے مزین یہ کتاب کتب خانہ انجمن ترقی، اردو بازا جامع مسجد دہلی سے حاصل کریں۔