|
ممتاز شاعرہ علینا عترت 6 جون یوم پیدائش
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے : علینا عترت
نسائی لب و لہجے کی معروف شاعرہ علینا عترت کا یوم ولادت ہے
اصلی نام علینا عترت اورتخلص :’علینا’ ہے۔6 جون کو نگینہ ،بجنور, اتر پردیش میں پیدا ہوئیں
مینا نقوی , نصرت مہدی ان کی بہنیں ہیں
انہوں نےانگریزی ادب اور تاریخ میں ایم اے کرنے کے ساتھ بی ایڈ کیا ہے اور فی الوقت وہ شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں.
علینا عترت اپنے فن پر مکمل عبور رکھتی ہیں۔ ان کے مزاج اور رکھ رکھاؤ میں ایک فکر انگیز سنجیدگی ہے۔ علینا عترت کی غزلیں خود اپنا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ مشاعرہ زدہ شاعری سے دور، جذبات کو شعری پیکرمیں ڈھال کر ایک معیار عطا کرتی ہیں۔ علینا عترت لفظوں سے خوبصورت چہرے بنانا جانتی ہیں۔ ان کی شاعری ادب کے آئینے پہ اپنا عکس بناتی ہے۔ نسائی احساسات اور جذبات کی پاکیزگی ان کی شاعری کے نمایاں وصف ہیں۔
ان کا شعری مجموعہ ’’سورج تم جاؤ‘‘ عوام و خواص میں پذیرائی حاصل کرچکا ہے اور اسے دہلی اردو اکادمی اور بہار اردو اکادمی سے سال 2015 اور 2016 میں انعامات سے نوازا جا چکا ہے. علاوہ ازیں انہیں ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعدد اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی غزلیں، نظمیں اور افسانے ملک و بیرون ممالک کے معیاری رسائل و جرائد میں پابندی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں. وہ مشاعروں میں جانا پہچانا نام ہیں اور انہوں نے اپنے خوبصورت ترنم کے ساتھ معیاری شاعری کی وجہ سے اپنی مخصوص شناخت قائم کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ملک و بیرون ممالک کے معیاری مشاعروں میں پابندی سے مدعو کیا جاتا ہے
ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے جیسے
انعامات- دہلی اردو اکادمی سے پہلا انعام 2015
بہار اردو اکادمی سے دوسرا انعام 2016
فروغ اردو اوارڈ 2014
نگینہ اوارڈ 2016
سوئم سدھا مہلا اوارڈ 2017
فروغ اردو ادب اوارڈ کویت 2017
فروغ اردو اوارڈ نجیب آباد 2017
پروین شاکر غزل اوارڈ 2017
نیشنل ،انٹرنیشل ((لاہور،بہرین، قطر،کویت،ابوظہبی ) پروگرامز میں شرکت
پیشکش سلمی صنم
*****************************
نسائ لب و لہجہ کی معروف شاعرہ علیان عترت کے یوم ولادت پر پیش خدمت ہے ان کا نمونہ کلام بطور خراج عقیدت
غزل
زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی میں نے
اپنے ہونے کی خبر سب سے چھپا لی میں نے
جب زمیں ریت کی مانند سرکتی پائی
آسماں تھام لیا جان بچا لی میں نے
اپنے سورج کی تمازت کا بھرم رکھنے کو
نرم چھاؤں میں کڑی دھوپ ملا لی میں نے
مرحلہ کوئی جدائی کا جو درپیش ہوا
تو تبسم کی ردا غم کو اوڑھا لی میں نے
ایک لمحے کو تری سمت سے اٹھا بادل
اور بارش کی سی امید لگا لی میں نے
بعد مدت مجھے نیند آئی بڑے چین کی نیند
خاک جب اوڑھ لی جب خاک بچھا لی میں نے
جو علیناؔ نے سر عرش دعا بھیجی تھی
اس کی تاثیر یہیں فرش پہ پا لی میں نے
غزل
خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے
بہار آنے کی صورت نکل بھی سکتی ہے
جلا کے شمع اب اٹھ اٹھ کے دیکھنا چھوڑو
وہ ذمہ داری سے ازخود پگھل بھی سکتی ہے
ہے شرط صبح کے رستے سے ہو کے شام آئے
تو رات اس کو سحر میں بدل بھی سکتی ہے
ذرا سنبھل کے جلانا عقیدتوں کے چراغ
بھڑک نہ جائیں کہ مسند یہ جل بھی سکتی ہے
ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا
ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے
یہ آفتاب سے کہہ دو کہ فاصلہ رکھے
تپش سے برف کی دیوار گل بھی سکتی ہے
ترے نہ آنے کی تشریح کچھ ضروری نہیں
کہ تیرے آتے ہی دنیا بدل بھی سکتی ہے
کوئی ضروری نہیں وہ ہی دل کو شاد کرے
علیناؔ آپ طبیعت بہل بھی سکتی ہے
غزل
شام کے وقت چراغوں سی جلائی ہوئی میں
گھپ اندھیروں کی منڈیروں پہ سجائی ہوئی میں
دیکھنے والوں کی نظروں کو لگوں سادہ ورق
تیری تحریر میں ہوں ایسے چھپائی ہوئی میں
کیا اندھیروں کی حفاظت کے لے ر کّھی ہوں
اپنی دہلیز پہ خود آپ جلائی ہوئی میں
خاک کر کے مجھے صحرا میں اڑانے والے
دیکھ رقصاں ہوں سر دشت اڑائی ہوئی میں
لوگ افسانہ سمجھ کر مجھے سنتے ہی رہے
درحقیقت ہوں حقیقت سے بنائی ہوئی میں
میری آنکھوں میں سمایا ہوا کوئی چہرہ
اور اس چہرے کی آنکھوں میں سمائی ہوئی میں
کتنی حیران ہے دنیا کہ مقدّر کی نہیں
اپنی تد بیر کے ہاتھوں ہوں بنائی ہوئی میں
میرے انداز پہ تا دیر علینا وہ ہنسا
ذکر میں اس کے تھی یوں خود کی بھلائی ہوئی میں
غزل
اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ
اک جدا کردار ہوں اپنے ہی کرداروں کے بیچ
پھر رہی ہوں بے سبب پاگل ہوا سی جا بجا
دھند میں لپٹے ہوئے خاموش کہساروں کے بیچ
اس حصار خاک کو جب توڑ کر نکلوں گی میں
ڈھونڈتے رہ جاؤگے تم مجھ کو دیواروں کے بیچ
کچھ کڑے ٹکراؤ دے جاتےہیں اکثر روشنی
جوں چمک اٹھتی ہے کوئی برق تلواروں کے بیچ
شکل یہ بہتر ہے لیکن پختگی کے واسطے
آؤ مٹی کو رکھیں کچھ دیر انگاروں کے بیچ
غزل ۔۔۔۔
ہر اک ورق میں نمایاں ہر ایک باب میں ہم
تھے حاشیہ کی طرح پھر بھی اس کتاب میں ہم
جواب ہم تھے ہمارے لۓ جواب نہ تھے
سوال میں تو تھے شامل نہ تھے جواب میں ہم
کوئ ملا ہی نہیں جس سے حال دل کہتے
ملا تو رہ گۓ لفظوں کے انتخاب میں ہم
عیاں تھے جذبۂ دل اور بیاں تھے سارے خیال
کوئ بھی پردہ نہ تھا جب کہ تھے حجاب میں ہم
علینا تجربے ہیں تلخ اس کے مکتب کے
تو اور امتحاں دینگے نہ اس نصاب میں ہم
پیشکش
سلمی صنم
|