Urdu News

یومِ اُردو یا مسلم شدّت پسندانہ ذہنیت : ڈاکٹر اطہر فاروقی

ڈاکٹر اطہر فاروقی انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سیکرٹری ہیں

یومِ اُردو یا مسلم شدّت پسندانہ ذہنیت
اطہر فاروقی
 یومِ اردو منانے کی بات زور شور کے ساتھ 2007 کے آس پاس اٹھی تھی۔ اس وقت ایک اردو اخبارکے نمائندے نے اس سوال کو کچھ اس طرح اٹھایا کہ اپنے ایک رشتے دار سے جو دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں استاد ہیں، مشورہ کرکے کہ اردو ڈے کب منایا جائے، ایک بڑی اسٹوری شائع کی۔ مذکورہ استاد علم و دُنیا کی سیاست دونوں کے معاملات سے بالکل بے خبر، مگر اپنے معاملات میں غیرمعمولی طور پر چوکس اور زیرک کے زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں، یوں انھوں نے ذہن پر زور ڈالے بغیر اقبال کے یومِ پیدائش 9نومبر، جو جمعہ 9نومبر 1877 بہت تحقیق کے بعد اقبال کی تاریخِ ولادت کے طور پر متعین کیا گیا اور اب وہی مستند سمجھا جاتا ہے، کو یومِ اردو کے طور پر منانے کا مشورہ دیا، اس کے بعد بہت سی جگہوں پر 9نومبر کو اقبال ڈے منایا جانے لگا۔
اس سے پہلے بھی کچھ جگہوں پر یومِ اردو 9نومبر کو منایا جاتا تھا، مگر بہت چھوٹے پیمانے پر۔ ملک کے کئی حصوں، خصوصاً بہار میں بہت زمانے سے مولانا آزاد کے یومِ پیدائش 11نومبر 1888 کے موقعے پر خاصی بڑی تعداد میں یومِ اردو منایا جاتا ہے۔
اقبال اسلامی تاریخ میں منفرد و ممتاز حیثیت کے حامل
 یہ وقت اقبال کی عظمت کی تائید میں دلائل دینے کا نہیں ہے، جو اپنے متنازعہ سیاسی خیالات کے باوجود بلاشبہ اردو کےعظیم ترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔ وہ اسلامی تاریخ کے مجتہدین کی کہکشاں کا حصہ ہیں اور قدیم اسلامی فلسفیوں پر کئی معنوں میں سبقت رکھتے ہیں۔ انھیں مغربی علوم پر قدرت حاصل تھی، اس لیے، اگر یہ کہا جائے کہ اقبال اسلامی تاریخ میں منفرد و ممتاز حیثیت کے حامل ہیں، تو اس میں کسی مبالغے کا دخل نہ ہوگا۔ تاہم اقبال کے یومِ ولادت کی مناسبت سے یومِ اقبال کی تقریبِ سعید تو مناسب ہے مگر یومِ اردو کے تعیّن کے لیے ہمیں کسی اور نام پر ہی غور کرنا ہوگا۔
پنڈت دیو نرائن پانڈے اور جے بہادر سنگھ ایسے عاشقانِ اردو کی خدمات
 دو برس پہلے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ایک استاد نے پنڈت دیونرائن پانڈے اور جے بہادر سنگھ کے یومِ شہادت کو یومِ اردو کے طور پر منانے کی تجویز کو مشن بنالیا۔ پنڈت دیو نرائن پانڈے اور جے بہادر سنگھ ایسے عاشقانِ اردو کی خدمات کو اردو معاشرے کے ذریعے فراموش کرنا اردو داں آبادی کی حد درجے ذہنی پستی کا علامیہ ہے۔ ان دونوں مجاہدین نے اردو محافظ دستے کے رضاکاروں کے طور پر اترپردیش میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے غیر معیّنہ مدت کے لیے بھوک ہڑتا ل کی تھی۔ دیو نرائن پانڈے نے 20مارچ 1967 کو کان پور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر کے باہر اور جے بہادر سنگھ نے لکھنؤ میں اسمبلی کے باہر یہ بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔
پانڈے جی کی موت 31 مارچ 1967 کو ہوئی اور جے بہادر سنگھ نے اس کے چند روز بعد داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ بات بہت زیادہ پرانی نہیں، مگر اردو والے ان بے مثال عاشقانِ اردو کو یکسر فراموش کرچکے ہیں۔ ان تمام عظیم قربانیوں کے باوجود بھی اردو جیسی ملک گیر سطح پر بولی جانے والی زبان سے وابستہ سب سے اہم دن کو دیونرائن پانڈے اور جے بہادر سنگھ سے موسوم نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں
اردو جیسی بڑی زبان جس کا ادب تیسری دنیا کے ادب میں وقیع ترین ہے، کے یومِ تفاخر کو واقعتا جس شخصیت سے موسوم کرنے کی ضرورت ہے وہ آزاد ہندستان میں —  میری ناقص راے میں— مولانا ابوالکلام آزاد کے سوا دوسرا نہیں ہوسکتا۔ اردو کو مولانا سے وابستہ کرنا سیاسی طور سے بھی صحیح ہوگا جو جمہوریت میں سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اپنی تمام تر سیاسی سرگرمیوں کے باوجود ایک اُردو اہلِ قلم کے طور پر مولانا کی حیثیت منفرد ہے۔ سیاسی سطح پر بھی اردو کے تئیں مولانا کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں بلکہ یہ کہنے میں قطعی مبالغہ نہیں کہ آج اگر ہندستان میں اردو زندہ ہے تو اس کا سہرا مولانا کے علاوہ کسی اور کے سر نہیں باندھا جاسکتا۔
یہ صحیح ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی بے پناہ مدد کے بغیر مولانا اردو کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تھے، مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ اگر مولانا نہ ہوتے تو تقسیم کے بعد حالات میں —اب جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا— مسلمانوں کی کیسی درگت بنتی۔
قیام کا تصورمولانا جیسے نابغۂ روزگار ہی کے ذہن میں آسکتا تھا
 مولانا آزاد ہندستان کے آج بھی سب سے مدبر وزیرِ تعلیم تصور کیے جاتے ہیں۔ انڈین کاؤنسل فار کلچرل ریلیشنز (ICCR) جو وزارتِ خارجہ کی ثقافت کے ذریعے ڈپلومیسی کا سب سے موثر ادارہ ہے، کے قیام کا تصورمولانا جیسے نابغۂ روزگار ہی کے ذہن میں آسکتا تھا۔ آئی آئی ٹیز (IITs)، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، ساہتیہ اکادمی،سنگیت ناٹک اکادمی، للت کلا اکادمی، (National Academy for Fine Arts) کے قیام کا تصور مولانا آزاد کے سوا ہندستان کے کس وزیرِ تعلیم کے ذہن میں آسکتا تھا؟ مولانا کے بعد کوئی ایک ایسا وزیرِ تعلیم ہندستان میں نہ ہوا جس نے کسی ایک بھی تعلیمی اور ثقافتی پالیسی ساز ادارے کے قیام کا ڈول ڈالا ہو۔
یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے انجمن ترقی اردو (ہند) کے پلیٹ فارم سے 20 لاکھ 50 ہزار دستخطوں کے ساتھ جو محضر صدرِ جمہوریہ کو پیش کیا تھا، وہ نہرو نے وزارتِ داخلہ جو زبانوں کے معاملات کی وزارت بھی ہے، کے بجاے مولانا آزاد کے پاس ہی بھیجا تھا۔ اس دور میں ظاہر ہے کہ اردو کے لیے کھلے طور پر کچھ بھی کرنے کے حالات نہ تھے۔
پنڈت نہرو اردو کے معاملات میں شمالی ہند کے وزراے اعلا کے سامنے خود کو مکمل طور پر بے بس پاتے تھے
حالات اس قدر دگرگوں تھے کہ پنڈت نہرو اردو کے معاملات میں شمالی ہند کے وزراے اعلا کے سامنے خود کو مکمل طور پر بے بس پاتے تھے، اس لیے، نہرو اور مولانا نے اردو کے لیے جو کچھ بھی کیا وہ نہایت ہی خاموشی اور انتہائی سیاسی تدبر کے ساتھ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو اس ملک میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرکر ایک زندہ زبان کے طور پر ترقی کررہی ہے، اعلا تہذیب و ثقافت کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ کل اردو کی ترقی کا سفر کس سمت میں ہوگا، اس کا فیصلہ مستقبل کے سیاسی محرکات کے تابع ہے مگر یومِ اردو کی مولانا آزاد سے نسبت قائم کرنا ہر اعتبار سے احسن و مستحسن ہے۔
جمہوریت میں ہر فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا جانا چاہیے، اس لیے، میرے خیال کو محض ایک تجویز سے زیادہ کچھ نہ سمجھا جائے مگر اس موضوع پر بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے تاکہ جلد ہی اردو والے کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔۔
(ڈاکٹر اطہر فاروقی انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ وہ اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی زبانوں میں خوب لکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر اطہر فاروقی اپنی بے باکی کے لئے خاصے مشہور بلکہ بدنام ہیں۔ وہ منطقی انداز میں دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھتے ہیں ۔ علامہ اقبال کے یوم پیدائش اور یوم اردو کے حوالے سے ڈاکٹر اطہر فاروقی کی یہ تحریر ذرا تلخ اور چشم کشا ہے۔ “” ٹیم انڈیا نیریٹو ، دہلی )

Recommended