Urdu News

’بازار میں طالب‘ اور ’خود کشی نامہ‘ والے ڈاکٹر رضوان الحق سچ مچ بڑے عجیب ہیں

زندگی سے بہت پیار کرتے ہیں ”خودکشی نامہ“ لکھنے والے ڈاکٹر رضوان الحق

ڈاکٹر رضوان الحق

’بازار میں طالب‘ اور ’خود کشی نامہ‘ والے ڈاکٹر رضوان الحق سچ مچ بڑے عجیب ہیں

اچھے دوست، اچھے انسان، اچھے یا برے مگر منفرد افسانہ نگار ڈاکٹر رضوان الحق جے این یو میں میرے سینیئر تھے۔ ڈپلومہ ان ماس میڈیا میں میرے ہم جماعت تھے۔ جے این یو مجھ سے ایک سال بعد پہنچے تھے۔ میں ایم اے میں آیا تھا اور ایک سال بعد یہ جناب ایم فل میں آئے۔ رضوان بھائی بہت پیارے انسان ہیں۔ خوبیوں کے مالک ہیں۔ مجھے اپنے چھوٹے بھائی کی طرح ہمیشہ عزیز رکھتے ہیں۔ ادب ہو یا زندگی اپنی ایک الگ رائے قائم کرتے ہیں اور اپنی رائے پر قائم رہتے ہیں۔ رہن سہن، آداب و گفتار، لباس، کھان پان، پسند نا پسند اور تحریر و تقریر ہر میدان میں رضوان بھائی منفرد نظر آتے ہیں۔ نہ کسی کو مرعوب کرتے ہیں نہ کسی سے مرعوب ہوتے ہیں۔ بظاہر زندگی میں بکھراؤ نظر آئے گا مگر ہر بکھراؤ میں سلیقہ بہت ہے۔

رضوان بھائی نہایت شریف انسان ہیں۔ ان کی شریفانہ وضع قطع کی وجہ سے کچھ لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ رضوان صاحب آس پاس کی دنیا سے غافل ہیں۔ لیکن رضوان بھائی اتنے بھی شریف نہیں ہیں۔ آس پاس کی ہر ہلچل پہ نظر رکھتے ہیں۔ بلکہ بند آنکھوں سے دیواروں کے اس پار بھی دیکھ لیتے ہیں۔ حس مزاح بہت بیدار ہے۔ خود پہ ہنسنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ بظاہر سنجیدہ نظر آئیں گے لیکن ان کے اندر ایک بچے کا چلبلا پن بھی ہے۔ پڑھنے کے شوقین ہیں لیکن کچھ خاص مصنفین کو ہی پڑھتے ہیں۔ فنون لطیفہ سے نہ صرف دلچسپی ہے بلکہ اچھی سمجھ بھی رکھتے ہیں۔

فکشن اور شاعری کے ساتھ ساتھ موسیقی، مصوری، سنگ تراشی اور مجسمہ سازی پہ گہری نظر

فنون لطیفہ کا معاملہ یہ ہے کہ اردو کے بہت سے شاعر،ادیب ایسے ہیں جو لطیفہ اور فنون لطیفہ میں فرق نہیں کر سکتے۔ کچھ ایسے شعراء حضرات ہیں جو صرف شاعری سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں ایسے کئی شاعروں کو جانتا ہوں جو ناول یا افسانہ نہیں پڑھتے۔ بعض شاعر تو ایسے بھی ہیں جو اپنے سوا کسی دوسرے شاعر کا کلام بھی نہیں پڑھتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو کچھ بھی نہیں پڑھتے ہیں۔ لیکن رضوان الحق صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ راقم السطور کی طرح ان کو بھی پڑھنے کی بیماری ہے۔ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی ادب بھی پڑھتے ہیں۔ حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ کسی روز معلوم ہو کہ آں جناب نے فرینچ یا جرمن زبان سیکھ لی ہے اور اب کافکا یا گوئٹے کو اس کی زبان میں پڑھتے ہیں۔

رضوان بھائی ادین واجپئی، اشوک واجپئی، وبھوتی نرائن رائے یا وجئے بہادر سنگھ پر اسی انداز سے گفتگو کرتے ہیں جیسے سید محمد اشرف، خالد جاوید اور شمیم حنفی کے فن پہ گفتگو کرتے ہیں۔ چے خف، گورکی، کافکا، مارکیز یا بار برا کارٹ لینڈ کا صرف نام نہیں لیتے ہیں بلکہ ان کے فن کی کیا خصوصیات ہیں اس پہ بھی فیصلہ کن انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔

ہر بات میں انفرادیت

رضوان بھائی سنتے سب کی ہیں لیکن کرتے اپنی ہیں۔ شروع شروع جب جے این یو آئے تھے ہم انھیں لکھنوی نذاکتوں کے حوالے سے یاد کرتے تھے۔ چونکہ آبائی وطن محمودآباد ہے اور پرورش لکھنؤ میں ہوئی ہے اس لئے جے این یو میں دوست احباب انھیں راجہ محمود آباد کا وارث بتاتے تھے۔ شکیل خان جیسے دوست تو انھیں حقیقتاً راجہ محمود آباد کا وارث سمجھتے تھے۔ کاویری ہوسٹل میں ارون دیو، اسلم پرویز، آغا ظفر اور رضوان ممتاز کی ایک چوکڑی تھی۔ بنیادی طور پر یہ شریف لوگ تھے اس لئے”چانڈال چوکڑی“ کے نام سے نہیں جانے گئے لیکن یہ چوکڑی مشہور بہت تھی۔ راقم الحروف کو بھی اس چوکڑی سے نیاز حاصل تھا۔ یہ سب اپنے اپنے فن کے ماہر تھے۔ اسلم پرویز حیدر آباد میں، ارون دیو نجیب آباد میں، آغا ظفر رانچی میں اور رضوان صاحب بھوپال میں اپنی دنیا آباد کئے ہوئے ہیں۔

زندگی کے ہر شعبے میں اک خاص پسند

رضوان بھائی ہر بات میں اپنی خاص پسند رکھتے ہیں۔ مل لیتے ہیں سب سے مگر پسند نا پسند کا پیمانہ بہت خاص ہے۔ملنے جلنے والے بہت ہیں لیکن ”دوستو ں‘ کی تعداد بہت کم ہے۔ جے سی بی ایوارڈ والے پروفیسر خالد جاوید سے دوستی کی عمر پچیس سال سے زیادہ ہے۔ خالد جاوید اور رضوان الحق دونوں ایک دوسرے کے مداح ہیں، اور ہم دونوں کے مداح ہیں۔ کورونا کی وبا پھیلی ہوئی تھی اسی زمانے میں رضوان بھائی کا ٹرانسفر بھوپال سے دہلی ہو گیا۔ این سی ای آرٹی کیمپس میں مکان ملنے میں دیری تھی تو قریب کے ایک پاش علاقے میں ایک قدرے کشادہ اور مہنگا فلیٹ کرائے پر لیا۔

اس کشادہ، خوبصورت اور مہنگے فلیٹ میں جن لوگوں کو سب سے پہلے کافی پینے اور ادبی گفتگو کرنے کا موقع ملا وہ تھے پروفیسر خالد جاوید۔ ساتھ دیا پروفیسر نجمہ رحمانی اور جناب خورشید اکرم نے۔ اگرچہ اس خاکسار کو بھی نیاز حاصل ہے، لیکن رضوان صاحب کی علمی گفتگو کا ”لیول“ کچھ اور ہی ہے۔

زندگی سے بہت پیار کرتے ہیں ”خودکشی نامہ“ لکھنے والے ڈاکٹر رضوان الحق

تحریر : ڈاکٹر شفیع ایوب ، دہلی

Recommended