Urdu News

ڈاکٹر خان محمد رضوان کی کتاب پر ڈاکٹر زرنگار یاسمین کا بے باک اور فکر انگیز تبصراتی مضمون

ڈاکٹر خان محمد رضوان کی کتاب ”اسعد بدایونی: تنقید کے دائرے میں“ کا ٹائٹل پیج

ڈاکٹر خان محمد رضوان :اسعد بدایونی: تنقیدی دائرے میں

——ڈاکٹر زرنگاریاسمین
صدر شعبہ اردو
مولانا مظہرالحق عربی و فارسی یونیور سٹی، پٹنہ

اسعدبدایونی نے ویسے تو اردو نثر اور صحافت کی بھی قابل لحاظ خدمات انجام دی ہیں مگردنیائے ادب میں ایک شاعر کی حیثیت سے ان کا نام خصو صی اعتبار و احترام کا حامل ہے۔ میں اسے ان کی خداداد صلاحیتوں کے علاوہ شعوری کاوشوں کا بھی ثمر سمجھتی ہوں کہ وہ نہ صرف اپنی زندگی میں مقبول عام رہے بلکہ وفات کے بعد بھی ان کی ہر دل عزیزی قائم رہی۔ خاص طور پر ان کے اکثر شادگروں کا ان کے تئیں احترام اور خلوص اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب استاد اور اچھے انسان بھی تھے۔

گرچہ انہوں نے مختصرعمرپائی مگر زندگی میں ہی ان کے کئی شعری مجموعے اشاعت کی منزل سے گذرکر مرکز توجہ بنے اور 1980ء کے بعد سامنے آنے والی ادبی نسل میں ان کے متعدد اشعار حوالے کے طور پرپہ بار بار دہرائے جانے لگے۔

وفات کے بعد گویا ان کی تفہیم کا نیا سلسلہ شروع ہوا اور نہ صرف ان کی غزلوں میں پیش کردہ سنگین عصری صداقتیں موضوع گفتگو بنیں بلکہ ان کا دھاردار اسلوب بھی زیربحث رہا اور اس حوالے سے ان کی شاعری میں استعارات، تشبیہات، تلمیحات اور دوسرے شعری لوازمات کی موجودگی پر بھی بات ہوئی۔ ان مباحث میں حصہ لینے اور اسعدبدایونی کی ادبی خدمات کو بقائے دوام کے دربار میں جگہ دلانے کی سعی کرنے والوں میں اہم ترین نام خان محمد رضوان کا ہے جو اب تک اسعدبدایونی سے متعلق تین کتابیں منظرعام پر لاچکے ہیں اور یہ سلسلہ آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر خان محمد رضوان کی کتاب پر ڈاکٹر زرنگار یاسمین کا بے باک اور فکر انگیز تبصراتی مضمون

حال کے دنوں میں ان کی جو کتاب ”اسعدبدایونی: تنقیدی دائرے میں“ منظرعام پر آئی ہے وہ اسعدبدایونی پر لکھے گئے کم و بیش ڈھائی درجن مضامین کا انتخاب مع مقدمہ ہے۔ اس میں اسعدؔبدایونی کے معاصرین کے ساتھ ساتھ ان کے شاگردوں اور مدّاحوں کے بھی مضامین ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر سبھی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان میں اسعدؔکی شخصیت اور فنکاری کے مختلف گوشوں پر مدلّل گفتگو ملتی ہے۔ مگر میری نظرمیں اس کتاب کا سب سے قیمتی حصہ وہ مقدمہ ہے جو اپنی طوالت اور بلاغت کے سبب بذات خود ایک کتاب کی نہ سہی، مکمل مقالے کی حیثیت رکھتا ہے۔

ذہن کی شفافیت اور مطالعے کی وسعت

پہلی بات تو یہ ہے کہ  ڈاکٹر خان محمد رضوان  نے یہ مقدمہ محض روایتی طور پر نہیں بلکہ بھرپور توجہ اور خلوص کے ساتھ لکھا ہے۔ شاید اسی لیے انہوں نے ابتدا میں اپنے استاد اسعدؔبدایونی کے حوالے سے یہی سوال قائم کیا ہے کہ مقدمہ آخر ہوتا کیاہے؟ اور کسی کتاب کے لیے اس کی ضرورت یا اہمیت کیاہے۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے حسب توقع اگلے چندصفحات میں ان سوالوں کا جواب بھی دیاہے جس سے ان کی ذہن کی شفافیت اور مطالعے کی وسعت ظاہر کرتی ہے مگر یہاں اس جواب کا تفصیلی تذکرہ ضروری نہیں۔ اہل ادب کے لئے اس کا براہ راست مطالعہ زیادہ مفید ہوسکتاہے۔

میں صرف اتنا عرض کردوں کہ بظاہر یہ کئی قسطوں میں لکھاگیا محسوس ہوتاہے مگر غور کیجئے تو یہ کتاب کو مختلف جہتوں سے متعارف کرانے کا ایک خوب صورت طریقہ ہے۔ انہوں نے مقالہ نگار حضرات کا بھی تعارف کرایا ہے اور تصنیف کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک ممکنہ اعتراض کا یہ جواب و جواز بھی پیش کیا ہے:

 

”کسی شخص سے ڈاکٹر خان محمد رضوان اس کو اس طرح جگہ دی جائے کہ وہ شخص ہمارے شعور سے گزرکر تحت الشعور اور لاشعور میں اترجائے اور پھر ہماری زندگی کا اہم اوراٹوٹ حصہ اس طرح بن جائے کہ اس کی شخصیت اور فن تخلیق کو دہرانا اس بات کا غمّاز ہو کہ ہم سے روح کے اعتبارسے جدا نہیں ہواہے۔“

یہ فراخ دلی اور اعلیٰ ظرفی اب نایاب ہوتی جارہی ہے

ظاہر ہے کہ وہ اسعدؔبدایونی سے اپنی قربت کے اظہار پہ تکلف کے پردے نہیں ڈالنا چاہتے۔ یہ صاف گوئی قابل تعریف ہے اور یہ عزم اس سے زیادہ قابل تعریف ہے کہ وہ آئندہ ایڈیشن میں ان لغزشوں کی تصحیح کا ارادہ رکھتے ہیں جو کسی وجہ سے اس کتاب میں جگہ پاگئی ہوں اور قارئین جن کی نشاندہی کردیں۔ یہ فراخ دلی اور اعلیٰ ظرفی اب نایاب ہوتی جارہی ہے۔
اس کتاب کے اور بھی کئی امتیازات ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں اسعدؔبدایونی کے بھی دو مضامین ”نئی غزل میں اسالیب کا تنوع“ اور ”نئی غزل کا مزاج“ شریکِ اشاعت ہیں۔ان سے نہ صرف اسعدبدایونی کے فنّی نظریات کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ عصری اردو غزل سے متعلق ان کی بے باک آراء بھی سامنے آتی ہیں۔ اسعدؔبدایونی کی شاعری کے علاوہ ان کی شخصیت اور دیگر مصروفیات، بھی بعض مقالوں میں بیان ہوئی ہیں۔

اس سلسلے میں ان کے رشتے کے نانا توصیف تبسمؔ کے دو مضامین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ویسے تمام مضامین کا سلیقے کے ساتھ انتخاب اور ان کی ترتیب و تہذیب کے لیے بھی مرتب ستائش کے مستحق ہیں۔ واقعی انہوں نے خلوص کے ساتھ حقِ شاگردی ادا کیا ہے مگر ان کی کاوشیں صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں۔ اپنے مطالعے کی روشنی میں انہوں نے خود بھی اسعدؔ بدایونی کی شاعری خصوصاً غزل گوئی سے متعلق کچھ نتائج اخذ کئے ہیں جو قابل توجہ ہیں۔

اسعدبدایونی کے یہاں صنائع کا التزام نئے آہنگ، نادر اسلوب

  ڈاکٹر خان محمد رضوان کے اپنے مطالعے کا خلاصہ میری نظرمیں یہ ہے کہ اسعدبدایونی کے یہاں عصری حسّیت یقینا ہے مگر اس کا بیان عام طور سے اکہرے انداز میں نہیں بلکہ تخلیقی ہنرمندی کے ساتھ ہوا ہے۔ اپنے اس خیال کا اعادہ وہ کئی دوسری جگہوں پر بھی تواتر کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر:
”ہم دیکھتے ہیں کہ اسعدبدایونی کے یہاں صنائع کا التزام نئے آہنگ، نادر اسلوب اور معنی کی تہوں میں چھپا ہوا نرم اور سبک لہجہ اپنی الگ فضا قائم کرلتیا ہے، جو شاعر کا امتیاز بن کر ابھرتا ہے۔“

(مقالہ: مطبوعہ دستاویز، شمارہ ۶۱ تا ۸۱، بہارقانون ساز کونسل، پٹنہ/۰۲۰۲ء)

انہوں نے بجاطور پر یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ شاعر کے یہاں جو خودداری اور انانیت ہے وہ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ وہ شاعر کے تجرّد کی نہیں بلکہ ان کے تجربات کی دین ہے۔
کتاب کے ابتداء میں ”حرفے چند“ کے عنوان سے لکھاگیا ڈاکٹرشہاب ظفراعظمی کا تعارف بہت جامع اور مفید ہے۔ کتاب کے آخر میں درج شدہ چند تبصرے بھی کارآمد اور معلوماتی ہیں مگر اسعدبدایونی کی منتخب غزلوں کی شمولیت کا سبب مجھ پہ واضح نہیں ہوسکا۔
مجموعی طور پر ”اسعدبدایونی: تنقیدکے دائرے میں“ خان محمد رضوانؔ کی ایسی کاوش ہے جس میں فنکار کی شخصیت اور شاعرانہ عظمت و انفرادیت کے بیشتر رنگ نمایاں ہیں۔ یہ مرتب کی اپنی علمیت اور استاد سے جذباتی وابستگی، دونوں کا آئینہ ہے۔

Recommended