Urdu News

حیدرآباد میں اردو صحافیوں کا میلہ ۔ کچھ مثبت پہل

مظفر غزالی مشہور صحافی 

 

حیدرآباد میں اردو صحافیوں کا میلہ ۔ کچھ مثبت پہل

معصوم بھائی آپ کی تحریر پڑھ کر بہت افسوس ہوا ۔ کانفرنس کی روداد سے ناواقفیت اس سے پوری طرح عیاں ہو رہی ہے ۔ کانفرنس کی کمیوں کی طرف نشاندہی کی جا سکتی ہے ۔ وہ بھی پبلک پلیٹفارم پر لکھنے کے بجائے منتظمین کے گوش گزار کی جانی چاہئے تھی ۔ جن پانچ حضرات کا آپ نے نام لیا، کیا اردو صحافت ان کے دم سے زندہ ہے ۔ کیا آپ نے ان حضرات سے معلوم کیا ہے کہ انہیں بلایا گیا تھا یا نہیں؟ کانفرنس میں مردہ پرستی کے بجائے تنوع تھا ۔ اس میں بیٹھک بازوں، چاپلوسوں، گروپ بندی کرنے والوں کے بجائے کام کرنے والوں کو بلایا گیا تھا ۔ شمیم طارق، حسن کمال، شاہد لطیف، شکیل شمسی، قربان علی، عزیز برنی، اطہر فاروقی، سہیل انجم، یامین انصاری، سرفراز آرزو، اسعد مرزا، شافع قدوائی، مظفر حسین غزالی، فرحت رضوی، وحید نقوی، خورشید ربانی، سید اسدر علی، ریحان غنی، اقبال صبا، اعظم شاہد، مہتاب عالم، زین صلاح الدین، خورشید وانی، پروفیسر جہانگیر وارثی، پروفیسر محمد سجاد، پروفیسر شاہد حسین، ڈاکٹر شکیل اختر، ڈاکٹر دبیر احمد، اشرف بستوی کے علاوہ اور کئی قابل ذکر اردو صحافی اس میں موجود تھے ۔

اردو کا سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار ہند سماچار بھی ایک غیر مسلم کا ہی ہے

جہاں تک اردو اور دیگر زبانوں کے صحافیوں کے درمیان امتیاز کا سوال ہے تو یہ نہ صرف جھوٹ ہے بلکہ سراسر بہتان ہے ۔ آپ نے کہا ہے کہ حیدرآباد کے لوگوں کو نہیں بلایا گیا تو اس کانفرنس میں سیاست کے سید عامر علی خان، رہنمائے دکن، منصف، اعتماد کے ایڈیٹر اور گواہ کے ایڈیٹر محمد فاضل پرویز کانفرنس میں موجود تھے ۔ یہ کہنا کہ ہندی اور انگریزی کے صحافیوں نے اردو کی کیا خدمت انجام دی ہے ۔ تو یاد رکھنا چاہئے کہ اردو کا پہلا اخبار ایک غیر مسلم نے نکالا تھا ۔ اردو کا سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار ہند سماچار بھی ایک غیر مسلم کا ہی ہے ۔ انقلاب، سہارا، عوامی نیوز بھی غیر مسلم ہی نکال رہے ہیں ۔ کانفرنس میں ہندی اور انگریزی کے صحافیوں نے اردو کی اس طرح وکالت کی کہ اردو والے نہیں کر سکتے ۔ آپ کو سنگھ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص پر اعتراض ہے تو کانفرنس میں سنگھ کے نظریہ کی نمائندگی کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور نہ ایسی کوئی بات سامنے آئی جس پر اعتراض کیا جاتا ۔

یہ کسی کا انفرادی نہیں بلکہ یونیورسٹی کا پروگرام تھا ۔ یونیورسٹی کو بہت سی باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ اس کے فیصلہ پر انگلی اٹھانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ آخری بات یہ کہ کانفرنس کے لئے فنڈ کا انتظام پروفیسر احتشام خان نے خود کیا تھا ۔ جس کے لئے انہیں مبارکباد دینی چاہئے ۔ آپ کو کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا ملال ہے میں سمجھ سکتا ہوں

Recommended