Urdu News

اردو میں سرقہ توارد اور چربہ

اردو میں سرقہ، توارد اور چربہ جیسے الفاظ اکثر سننے ملتے رہتے ہیں جسے دوسری زبان میں کاپی یا نقل کہا جا سکتا ہے راقم کا ماننا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ کسی شعر میں اگر خیال، الفاظ، بحر و زمین میں سے کسی میں یکسانیت پائی جائے تو اس کو چوری کا نام دے دیا جائے کسی بھی تخلیق کا ایک بنیادی مقصد یا پھر کوئی زور آور جذبہ منصہ والد کا کردار ادا کرتا ہے جس کی وجہ سے فن پارہ وجود میں آتا ہے جب تک انسان ہیں یہ دنیاں اپنی رنگینیوں کے ساتھ قائم ہے دلوں کے جذبات رہیں گے حسن و عشق کی کہانیاں رہیں گی عبدو معبود کا وجود رہےگا الفاظ بھی خیالات کو لبادوں میں لپیٹ کر پیش کرتے رہیں گے.

جوانی ہے تو عشق ہے اور یہی عشق ڈھلتی عمر میں عبادت اور حقیقی منزل کی طرف گامزن ہو جاتا ہے

ایسا کیونکر ہو سکتا ہے کہ الفاظ کو ہی سب کچھ مان لیا جائےجبکہ اصل تو مناسبت اور رجحان ہوتا ہے. جوانی ہے تو عشق ہے اور یہی عشق ڈھلتی عمر میں عبادت اور حقیقی منزل کی طرف گامزن ہو جاتا ہے اس وقت خدائے واحد کی حمد و ثنا سے صفحے معطر ہوتے ہیں

.اس کے ساتھ ہی شاعروں کے خیالات الفاظ اور انداز اکثر ایک دوسرے سے مل جاتا ہے کیونکہ واقعات ہر دور میں کم و بیش اسی طور رونما ہوتے ہیں جس طرح پہلے سے ہوتے رہے ہیں.

اگر شاعری کو پر زور بنانا ہے تو دوسروں کو سننا تو ہے ہی لیکن بنیادی ضرورت ہے فکر اور اس کی وسعت کے لیے منظم کاوش کرنے کی.غزل کی تعریف ہی ایسی ہے کہ اس میں آغاز سے حالیہ دور تک جو کچھ پیش کیا گیا گھما پھرا کر عاشق و معشوق کے قصوں میں ہی الجھا رہا.

غزل میں کچھ نیا تجربہ کرنے کی کوشش کرنا یا دوسرے موضوعات پیش کرنا اس کی خوبصورتی کو ختم کرنے کے مترادف ہے.اس صنف کی رعنائی حسن و عشق کی روایتوں کو زندہ رکھنے میں ہی ہے خود یہ بھی تب تک ہی دوشیزگی کے جلووں سے آراستہ رہے گی جب تک اس میں دوشیزاوں کا ذکر ہوتا رہے گا.

احمدندیم قاسمی

شعوُر میں، کبھی احساس میں، بساؤں اُسے

مگر، میں چار طرف بے حجاب پاؤں اُسے

اگرچہ فرطِ حیا سے، نظر نہ آؤں اُسے

وہ رُوٹھ جائے تو، سو طرح سے مناؤں اُسے

طوِیل ہجر کا یہ جبر ہے، کہ سوچتا ہُوں !

جو دِل میں بستا ہے، اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے

اُسے بُلا کے مِلا عُمر بھر کا سنّاٹا

مگر یہ شوق، کہ اِک بار پھر بلاؤں اُسے

اندھیری رات میں، جب راستہ نہیں مِلتا !

مَیں سوچتا ہُوں، کہاں جا کے ڈھوُنڈ لاؤں اُسے

ابھی تک اُس کا تصوّر تو میرے بس میں ہے

وہ دوست ہے، تو خُدا کِس لیے بناؤں اُسے

ندیم! ترکِ محبّت کو ایک عُمر ہُوئی !

میں اب بھی، سوچ رہا ہُوں کہ بُھول جاؤں اُسے
یہاں پر تین غزلیں ہیں ایک احمد ندیم قاسمی کی غزل ہے جس میں عشق حقیقی کی عمدہ پیشکش ہے شاعر کہتا ہے

شعور میں کبھی احساس میں بساوں اسے

مگر میں ہر طرف بے حجاب پاوں اسے

دوسری غزل حامد اقبال صدیقی کی ہے جس میں محبوب سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے نیے نیے پہلو تلاش کرتے ہوئے شاعر اپنے محبوب کو بے حد ستانے کے موڈ میں ہے کہتے ہیں کہ.

جدائیوں کے تصور ہی سے رلاوں اسے

میں جھوٹ موٹ کا قصہ کوئی سناوں اسے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حامد اقبال کا محبوب ان کا عاشق ہے وہ حامد سے بہت محبت کرتا ہے ہر وقت انھیں کو سوچتا ہے انھیں کے لیے جیتا ہے اور حامد اقبال اس کی محبت اور خلوص سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن پھر بھی آزمائش کی تلوار سے گزارنا چاہتے ہیں وہ لکھتے ہیں

وہ تپتی دھوپ میں بھی ساتھ میرے آئے گا

مگر میں چاندنی راتوں میں آزماوں اسے

غموں کے صحرا میں پھرتا رہوں اسے لے کر

اداسیوں کے سمندر میں ساتھ لاوں اسے

حامد اقبال کے محبوب سے بالکل الٹ پیش رو تیسری غزل کا محبوب زمانے کی قیدو بند سے مجبور ہے یہ غزل سہیل احمد صدیقی کی تخلیق ہے جس میں اعلی افکار و خیالات کے ساتھ بہترین الفاظ کا ستعمال ان کے فن کو دوبالا کرتا ہے ان کی شاعری میں زمانے سے بے زاری روایات سے اختلاف کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے.اپنے محبوب کے معاملے میں وہ کسی طورمفاہمت کے لیے راضی نہیں ہیں.ان کادل انھیں اپنے محبوب کے سامنے کسی کی بھی سننے نہیں دیتا. کہتے ہیں

جہاں کی ضد ہے کسی طور بھول جاوں اسے

ہزار چاہوں مگر کس طرح بھلاوں اسے

ان کا محبوب انھیں تنھا چھوڑ گیا ہے وہ اپنے دل سے مجبور ہیں اور چاہتے ہیں کہ کہین سے وہ واپس آجائے اور ان کے بے قرار دل کو سکون مل جائے لیکن اس کا پتہ نشان کہیں نہیں مل سکتا. اور بالاتفاق اگر کہیں وہ مل بھی جاتا ہے تو اس کی شرم و حیا اسے سامنے آنے سے روکتی ہے نظر چرانے پر مجبور کرتی ہے جبکہ شاعر کی خواہش ہے کہ نظر بھر کے دیکھ پاوں اسے. جب شاعر اپنے محبوب کی یاد سے بے حد پریشان ہو جاتا ہے تو وہ آئینہ سے اپنے درد کا ازالہ کرنا چاہتا ہے لیکن آئینہ لمس کی لذت سے نابلد ہے اور اس کا محبوب آئینہ میں چھپا ہوا ہے اور اس ادا سے چھپا ہے کہ وہ نمایاں بھی ہےیہاں شاعر کے احساسات اس کو مجبور کرتے ہیں کہ کسی طریقہ سے اسے محسوس کیا جائے اور اپنی بے قراری کو عیاں کیا جائے شاعر کا تصور بہت طاقتور ہے لیکن اس کا محبوب ان سب باتوِ ں سے ناآشنا بہت دور جلوہ افروز شاعر کو تڑپا رہا ہے.

شاعر اگر کبھی اپنے محبوب سے دو چار باتیں کرنا چاہتا ہے تو اس کا روپ کیکٹس کے خاروں کا سا ہوتا ہے جو اپنے آسپاس کسی کو برداشت ہی نہین کرتا شاعر اسے پھولوں سے زیادہ نرم پانے کا متمنی ہے اور اس کے قرب کے لیے بے چین ہے.

اگلے شعر میں شاعر بے حد اداس اور ناامید ہوگیا ہے اور یہاں جھنجلاہٹ میں وہ اس کی تعریف کے ساتھ ساتھ اپنا غصہ بھی ظاہر کر دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ میرا محبوب ہزاروں میں ایک ہے یہ تو صحیح ہے لیکن وہ پتھر کے بت کی مانند ہے اسے خدا کیوں مان لوں .اور اگر وہ مجھ پر عنایت نہیں کرتا تو ایک بت ہی ہے خدا تو اپنے بندوں پر کرم کرتا ہے.

لیکن شاعر اپنے محبوب کی ناراضگی سے خوف بھی کھاتا ہے وہ اس کی ناراضگی کو زیادہ دیر برداشت بھی نہیں کرسکتا وہ کہتا ہے کہ چلو اس کو منانا بھی ایک اہم کام ہے پہلے چل کر اسے مناوں

پیش روتینوں غزلوں میں تین معروف شاعروں کے قلم کے جوہر کھل رہے ہیں. احمد ندیم قاسمی کی غزل جس میں انھوں نےمالک حقیقی کو اپنا محبوب تسلیم کیا ہے اور اس کی طرف رجوع کرنے کے لیے نئی نئی تراکیب کے ذریعہ اپنے مدعے کو خوبصورت الفاظ میں ڈھال دیا ہے.

” شعور میں کبھی احساس میں بساوں اسے”

احمد ندیم قاسمی کا ادب میں مرتبہ اور ان کا عظیم نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے. اس غزل میں نہ صرف اعلی فکر کے نمونے سامنے آتے ہیں بلکہ عشق حقیقی سے لب ریز آرزوئیں اور عشق مجازی کی لذت حاصل کرنے کا خواہشمند یہ شاعر نیے نیے طریقوں سے محبوب سے شناخت بنا نا چاہتا ہے.

دوسرے حامد اقبال صدیقی جن کی محبوب سے اس حد تک آشنائی ہے کہ وہ اسے چھیڑنے کے آزمانے کے لیے اسے ورغلانے کو تیار ہیں اسے کھو دینے کی ہمت سے رکھتے ہیں کیونکہ اسے پالینے کا ان کا یقین لائق رشک ہے. ان کی فکر اس غزل میں حیران کن حوصلہ سے مزین ہے اسے دوسرے چہرے دکھانے کے لیے تیار ہیں انھیں اپنے محبوب سے کسی بھی طرح کا کوئی ڈر نہیں ہے ان کے افکار کی ہی طرح ان کا محبوب بھی عجیب ہے.

تیسرے شاعر سہیل احمد نے اپنی غزل کو روائتی انداز سے منظم کیا ہے ان کا محبوب شرمیلا اور باپردہ ہے وہ نخرے والا اور غصیلا بھی ہے لیکن یہاں محبوب کو اپنے عاشق پر یقین کامل ہے وہ معشوق انھیں ساتھ رکھنا بھی چاہتا ہے اور چھپی ہوئی بے انتھا محبت بھی کرتا ہے لیکن بظاہر وہ خاردار پہلو نمایا کرتا ہے جس سے عاشق اس کے ساتھ لگاو تو رکھے لیکن اس کی انا پر ٹھیس نہ لگے

الغرض شاعری اور مضامین شاعری ایک ہوتے ہوئے بھی اپنی انفرادیت میں یکتا ہیں. موضوع سخن محبوب کی طرف ہوتے ہوئے بھی اس میں اپنی انا کو قائم رکھنا عاشق و معشوق دونوں کا بھرم اعلی رکھنا یہ عمدہ شاعری کی علامت ہے جو ان غزلیات میں موجود ہے.

عزہ معین ۔ ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی دہلی

Recommended