کھنکتی آواز کی ملکہ: شمشاد بیگم
ہندوستانی فلموں کی کھنکتی آواز: شمشاد بیگم
ڈاکٹر شفیع ایوب
ہندوستانی فلم انڈسٹری کو جن گلوکاروں نے اپنی آواز سے سجایا ہے، ان میں محمد رفیع، مکیش، کشور کمار اور منّا ڈے کے ساتھ ساتھ لتا منگیشکر، آشا بھونسلے اور شمشاد بیگم کا نام بھی سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ انھیں ناقابل فراموش فلمی ہستیوں میں سے ایک ہستی شمشاد بیگم کی بھی ہے۔ ”تیری محفل میں قسمت آزما کے ہم بھی دیکھیں گے“۔ ”کجرا محبت والا، انکھیوں میں ایسا ڈالا“ یا ”لے کے پہلا پہلا پیار“ جیسے سدا بہار گیتوں کو اپنی کھنک دار آواز بخشنے والی شمشاد بیگم 14 اپریل 1919کو پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ والد میاں حسین بخش نے بیٹی کا نام شمشاد رکھا۔ شمشاد اپنی منفرد کھنک دار آواز لے کے پیدا ہوئی تھیں۔ اسکول کے دنوں میں ہی ان کے اساتذہ نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اس لڑکی کی آواز میں بلا کی کشش ہے۔ اس کی آواز کو کوئل کی کُوک کسی نے نہیں کہا۔ اس کی آواز میں ماں کی لوری جیسا پیار نہیں تھا لیکن اس کی آواز میں کسی جھرنے کی الہڑ، لاپرواہ روانی تھی۔ اس میں مندر میں بجنے والی گھنٹیوں کا تقدس تھا۔
1924میں جب شمشاد کی عمر ابھی صرف دس برس تھی ان کے اسکول کے پرنسپل نے ان کی آواز کی انفرادیت کو پہچان لیا۔ انہوں نے اسکول میں ہونے والے حمد و مناجات کے لیے شمشاد کو ہیڈ سنگر بنادیا۔ شمشاد کی منفرد آواز کی شہرت اسکول کی چار دیواری سے نکل کر آس پاس کے علاقوں میں پھیل گئی۔ اب وہ مذ ہبی تقریبات میں حمد و نعت پڑھنے کے لیے اور شادی بیاہ میں محفلوں میں پنجابی لوک گیت گانے کے لیے بلائی جانے لگیں۔ شمشاد کے والد میاں حسین بخش کو یہ سب پسند نہیں آیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شمشاد کے گانے کے ہی خلاف ہو گئے۔ حالانکہ شمشاد کی آواز کے وہ بھی قائل تھے۔ لیکن وہ اپنی بارہ تیرہ سال کی بیٹی کی بڑھتی ہوئی شہرت سے خوف زدہ تھے لیکن رفتہ رفتہ انہیں بھی اندازہ ہو گیا کہ شمشاد کے لیے گانا صرف گانا نہیں ہے بلکہ وہ اس کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔اگرچہ شمشاد کو موسیقی اور گائکی کی باقاعدہ تربیت نہیں ملی تھی لیکن ان کی خداداد صلاحیت میں یوں ہی دن بہ دن نکھار آتا گیا، رفتہ رفتہ ان میں موسیقی کا جنوں بڑھتا گیا۔ شمشاد کے ایک چچا قوالی اور غزل سرائی سے شوق رکھتے تھے۔انھوں نے اپنے بھائی یعنی شمشاد کے والد کو اس بات کے لیے آمادہ کر لیا کہ شمشاد گانے کا اپنا شوق پورا کر سکیں۔چچا شمشاد کو ساتھ لے کر امرتسر سے لاہور گئے۔ گیت سنگیت کی دنیا کے کئی بڑے استاد اس وقت لاہور میں موجود تھے۔ ان میں سے ایک بڑے نامی گرامی موسیقار غلام حیدر بھی تھے۔ چچا نے غلام حیدر سے شمشاد کا تعارف کرا دیا۔ پارکھی نظر نے ہیرے کو پہچان لیا۔ غلام حیدر نے شمشاد سے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی ایک غزل گانے کو کہا۔ شمشاد کی کھنکتی آواز میں بہادر شاہ ظفر کی غزل نے وہ جادو جگایا کہ غلام حیدر نے ایک ساتھ بارہ گانوں کے لیے شمشاد سے معاہدہ کرلیا۔ غلام حیدر جیسے بڑے موسیقار کا شمشاد جیسی نووارد کے ساتھ بارہ گانوں کامعاہدہ کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ شمشاد کی اس کامیابی پر دوسروں کے ساتھ ان کے والد میاں حسین بخش بھی بہت خوش ہوئے اور انھوں نے دو شرطوں کے ساتھ اپنی بیٹی کو اجازت دی کہ وہ گانے کے میدان میں آگے بڑھے۔ پہلی شرط یہ تھی کہ جب بھی ریکارڈنگ کے لیے جائے تو برقعہ اوڑھ کر جائے اور دوسری شرط یہ تھی کہ شمشاد کی تصویر اخبارات میں نہ شائع ہوں۔ یعنی وہ کسی صورت کیمرے کا سامنا نہ کرے۔ شمشاد اگرچہ ضدی تھیں اور اپنے ڈھنگ سے کام کرنے کی عادی بھی لیکن انھوں نے اپنے والد کی ان دونوں خواہشات کا احترام کیا۔
1937سے وہ لگاتار آل انڈیا ریڈیو کے پشاور اور لاہور مراکز سے گانے لگیں اور ان کی شہرت فلم انڈسٹری تک پہنچ گئی۔ ریڈیو پر ان کی آواز میں گیت سن کر لوگ دیوانہ وار آل انڈیا ریڈیو کو خطوط لکھتے، لیکن ان کے چاہنے والے، ان کی آواز کے لاکھوں مداح 1970تک ان کی تصویر نہیں دیکھ سکے تھے۔ کیوں کہ اپنے والد سے کیا وعدہ انھوں نے پورا کر کے دکھایا۔
گیت کے ساتھ ساتھ انھوں نے حمد، نعت، سلام، منقبت وغیرہ اپنی آواز میں ریکارڈ کرائے۔ دہلی کی مشہور دی کراؤن امپریل تھیٹریکل کمپنی نے بھی شمشاد کے گائے گیت اور غزلوں کے گراموفون ریکارڈ بازار میں اتارے۔ 1940کی دہائی میں شمشاد بیگم کے گراموفون ریکارڈ سب سے زیادہ قیمت پر بازار میں فروخت ہوتے تھے۔ 1941میں فلم ’خزانچی‘ اور 1942میں فلم ’خاندان‘ میں غلام حیدر صاحب نے بڑی خوبصورتی سے شمشاد بیگم کی آواز کا استعمال کیا۔ شمشاد بیگم کی آواز نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ 1940میں فلم ’یملا جاٹ‘ (Yamla Jatt)ریلیز ہوئی۔ بے حد کامیاب اس فلم نے ایک طرف اداکاری میں پران کی شناخت قایم کی تو دوسری طرف بطور موسیقارغلام حیدر اور بطور گلوکارہ شمشاد بیگم کی شناخت کو مستحکم کیا۔ اس کے بعد موسیقار اور گلوکارہ کی اس جوڑی نے پے در پے ’زمیندار‘، ’پونجی‘ اور ’شمع‘ جیسی ہٹ فلمیں دیں۔ ان تمام فلموں کی کامیابی میں شمشاد بیگم کی کھنک دار آواز کا بڑا عمل داخل تھا اور اسی وجہ سے اس وقت فلم انڈسٹری میں سب سے زیادہ فیس لینے والی گلوکارہ کے طور پر شمشاد بیگم کا نام ابھر کر سامنے آیا۔وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے دور کی پلے بیک سنگر ہیں۔ انھوں نے ہندی اردو کے علاوہ کئی علاقائی زبانوں میں 6ہزار سے زیادہ گانے گائے ہیں۔ انھوں نے ایس ڈی برمن اور نوشاد علی جیسے مایا ناز موسیقاروں کی دھنوں کو اپنی کھنکھناتی آواز سے سجایا ہے۔ محمد رفیع کے ساتھ شمشاد بیگم نے ”چھلا دے جا نشانی“ جیسا لازوال گیت گایا۔ فلم مغل اعظم میں نگار سلطانہ پر فلمایا گیا وہ گانا ”تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے“ بھلا کون بھول سکتا ہے۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کو ڈھیروں سدا بہار نغمے دے کر، زندگی کی 94بہاریں دیکھ کر، 23اپریل 2013کو شمشاد بیگم اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ لیکن ان کی کھنک دار آواز آج بھی اپنا جادو جگا رہی ہے۔
(کالم نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)