علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، شمشاد مارکیٹ، کیفے ڈی پھوس
کیوں اور کیسے بہت اہم ہے علی گڑھ کا تصویر محل
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی: اب نہ محل باقی ہے اور نہ وہ تصویر
اب نہ تصویر باقی نہ تصویر محل باقی
ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اتر پردیش۔ اسی اتر پردیش کا ایک شہر ہے علی گڑھ۔ دہلی سے محض تین گھنٹے کی دوری بہ ذریعے کار۔ علی گڑھ اپنے تالوں کے لئے بھی مشہور ہے۔ یہاں کی قینچی بھی مشہور ہے۔ لیکن دنیا بھر میں علی گڑھ کی شہرت کی وجہ ہے چمن سر سید۔ یعنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی۔ سر سید احمد خاں کے خوابوں کی تعبیر۔ ایک زمانے میں علامہ شبلی اور وقار الملک کی آمازگاہ۔ کیسے کیسے نابغہ روزگار اس یونیورسٹی سے نکلے ہیں۔ یہاں کی جو نشانیاں مٹ گئیں ان میں سے ایک خاص نشانی تھی محل کی عمارت۔ آزادی کے فورا بعد کے زمانے میں وجود میں آیا یہ مشہور زمانہ سنیما ہال اکیسویں صدی کی دو دہائیوں تک کسی طرح اپنا وجود بچا سکا۔
یادوں میں بسا تصویر محل
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی کچھ عجیب یونیورسٹی ہے۔ یہاں کے فارغین بڑی تعداد میں اپنے نام کے ساتھ علیگ لکھتے ہیں۔ ہر علیگ کو جو چند باتیں یاد رہ جاتی ہیں ان میں سے ایک ہے تصویر محل۔ یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور علی گڑھ ریلوے اسٹیشن کے درمیان ایک سنیما ہال تھا۔ علی گڑھ مسلم یونرسٹی کے زیادہ تر بانکے یہیں اپنی آنکھیں سینکنے پہنچتے تھے۔ جس طرح ہر علیگ کو شمشاد مارکیٹ یاد ہے۔ ہر علیگ کو استاد چھوہارا، وسیم بھنڈی اور نفیس بکرا یاد ہے۔ جس طرح ہر علیگ کو کیفے ڈی پھوس یاد ہے۔ اسی طرح ہر علیگ کو تصویر محل یاد ہے۔ اور تصویر کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی خوبصورت حادثہ یا سانحہ یاد ہے۔ لیکن افسوس کہ اب وہ تصویر محل صرف یادوں میں زندہ رہے گا۔
تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب، نئی دہلی
علیگرھ مسلم یونیورسٹی کے قریب واقع تصویر نام کا وہ تاریخی سینیما ہال جو اب باقی نہ رہا