Categories: قومی

انکم ٹیکس کے محکمے نے احمد آباد میں تلاشی کی کارروائیاں انجام دی ہیں

<div class="pull-right">
<div class="print-icons"></div>
</div>
<div class="innner-page-main-about-us-content-right-part">
<div class="text-center">
<h2>انکم ٹیکس کے محکمے نے احمد آباد میں تلاشی کی کارروائیاں انجام دی ہیں</h2>
</div>
<div class="pt20"></div>
<p dir="RTL">      انکم ٹیکس کے محکمے نے ریئل اسٹیٹ تعمیرات اور زمینوں کی تجارت میں مصروف ایک گروپ کے تعلق سے قابل بھروسہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر 8 اکتوبر 2020 کو احمد آباد میں تلاشی اور چھاپے کی کارروائیاں انجام دیں۔27 مقامات پر تلاشی لی گئی، جن میں بعض ایسوسی ایٹس کے دفاتر اور رہائش گاہیں بھی شامل تھیں۔</p>
<p dir="RTL">تلاشی کی کارروائیوں کے دوران اب تک تقریباً 69 لاکھ روپئے نقد اور تقریباً 82 لاکھ روپئے کے زیورات قبضے میں لیے جاچکے ہیں۔ ان کا کوئی حساب کتاب سامنے نہیں آیا۔ اس کے علاوہ 18 بینک لاکرزبھی ملے ہیں جن کے کھولنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ بڑی تعداد میں قابل اعتراض دستاویزات اور موبائل فونوں، پینڈ ڈرائیوز اور کمپیوٹروں میں ڈیجیٹل ڈیٹا پر بھی قبضہ کیا گیا ہے۔</p>
<p dir="RTL">اس گروپ کی 96 کمپنیاں تھی جن کے کچھ مشترکہ پتے تھے۔ ان کمپنیوں کو روپیہ بٹورنے اور زمینوں پر قبضے کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔ ان میں سے بہشتر کمپنیوں کا کوئی حقیقی کاروبار نہیں تھا اور ان کے بہت کم انکم  ریٹرن داخل کیے گئے ہیں۔  بہت سی کمپنیوں نے آر او سی کے ساتھ کوئی ریٹرن داخل نہیں کیا ہے۔ ان میں سے اصل خاندانی افراد کے علاوہ کچھ ڈائرکٹروں نے  یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ  فرضی ڈائرکٹر تھے اور ان کا کردار صرف دستخط کرنے تک محدود تھا۔</p>
<p dir="RTL">گروپ کے اندر ہی لین دین کے ذریعے املاک کی قیمت بڑھا کر جس کے لیے ٹیکس نہیں دینا پڑتا، ٹیکس بچانے کے جدید طریقے نوٹس میں آئے ہیں۔ باقاعدہ کھاتوں کے علاوہ لین دین کے  کافی ثبوت ملے ہیں۔ ایسے اخراجات دکھائے گئے ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نقد پیشگی رقم کی ادائیگی دکھائی گئی ہے۔ریئل اسٹیٹ کے پروجیکٹوں یعنی فلیٹ، دکانوں اور زمین کے لین دین میں تقریباً 100 کروڑ روپئے کی  بے حساب کتاب سرمایہ کاری کا بھی پتہ چلاہے۔</p>
<p dir="RTL">ایک خفیہ جگہ سے مختلف کو آپریٹیو سوسائٹیوں کے نام میں بڑی تعداد میں املاک کی دستاویزات پائی گئی ہیں۔ ان املاک کے اصل مالکوں سے  پوچھ تاچھ کی جارہی ہے اور  1988 کے  بے نامی پروپرٹی ٹرانزیکشن قانون  کے نفاذ پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ زرعی زمینوں کے رجسٹرڈ اور نوٹرائزڈ خرید وفروخت کے معاہدے  جو بڑی مالیت کے ہیں ان پر بھی قبضہ کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر 150 کروڑ روپئے کی املاک کے لین دین کے شواہد کا پتہ چلا ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں تھا۔</p>
<p dir="RTL">مزید تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔</p>

</div>.

inadminur

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago