Categories: قومی

سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں مراٹھا ریزرویشن کو غیر آئینی قرار دیا

<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>سپریم کورٹ نے مراٹھا ریزرویشن کو کیا ختم</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>سرکاری ملازمتوں اور داخلوں میں مراٹھوں کو ریزرویشن دینے کا قانون اب کالعدم قرار</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
سپریم کورٹ نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور مہاراشٹر میں سرکاری ملازمتوں اور داخلوں میں مراٹھا ریزرویشن کو ختم کردیا ہے۔ یہ فیصلہ آج جسٹس اشوک بھوشن کی سربراہی میں پانچ ججوں کی ایک آئینی بنچ کے ذریعہ سنایا گیا۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
 سپریم کورٹ نے کہا کہ مراٹھا کو سماجی اور اقتصادی اعتبار سے پسماندہ طبقے کی حیثیت سے ریزرویشن دینے کے لیے کوئی استثنائی حالات نہیں تھے، جس کو درست ٹھہرایا جاسکے اور زیادہ سے زیادہ پچاس فیصد ریزرویشن کی حد کو پار کیا جاسکے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
 کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نہ تو گائیکواڈ کمیشن نے اور نہ ہی ہائی کورٹ نے مراٹھا کے لیے ریزرویشن کی پچاس فیصد کی حد کو پار کرنے کے لیے کوئی صورت حال پیدا کی، لہٰذا بینچ اِس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ حد کو تجاوز کرنے کے لیے کوئی غیر معمولی حالات نہیں ہیں۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
سپریم کورٹ نے بدھ کے روز سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں مراٹھا برادری کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کرانے والے سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات ریزرویشن ایکٹ 2018 کو یہ کہتے ہوئے غیر آئینی قرار دیا کہ یہ ماضی میں نافذ 50 فیصد کی حد سے زیادہ ہے ۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
جسٹس اشوک بھوشن ، جسٹس ایل ناگیشورا راؤ ، جسٹس ایس عبدالنظیر ، جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس ایس رویندر بھٹ پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے متعلقہ کیس کی سماعت کے بعد اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ 2018 ایکٹ کے ترمیمی ایکٹ- 2019 کے تحت ، مراٹھا برادری میں ریزرویشن کی حد میں اضافے کے لیے کوئی غیر معمولی صورت حال نہیں ہے اور یہ ایکٹ 50 فیصد کی حد سے زیادہ ہے جو آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
عدالت نے کہا ’’ریاستوں کے پاس پارلیمنٹ کے ذریعہ کی گئیں ترامیم کی وجہ سے سماجی طور پر پسماندہ ذاتوں کی فہرست میں کسی بھی ذات کو شامل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ریاستیں صرف ذاتوں کی شناخت کرسکتی ہیں اور مرکز کو تجویز دے سکتی ہیں۔صرف صدر ہی قومی پسماندہ طبقات کمیشن کو ایس ای بی سی کی فہرست میں ذات کو شامل کرسکتے ہیں۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
تاہم عدالت نے یہ بھی کہا کہ پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کورس اور نئے کوٹا قانون کے تحت پہلے سے کی جانے والی تقرریوں کو آج کے فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں مراٹھا ریزرویشن کو غیر آئینی قرار دیا</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
سپریم کورٹ نے مراٹھا ریزرویشن کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ آئین کی 102 ویں ترمیم جائز ہے۔ مراٹھوں کو ایس ای بی سی کے زمرے میں شامل کرنے والی مہاراشٹرا کی تجویز غلط ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ ریزرویشن کی حد 50 فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکتی ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ ہنگامی حالت بیان کرتے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے لیکن ایسی کوئی صورت حال نہیں تھی۔ جسٹس گائکواڑ کی رپورٹ سے ایسی کوئی بات سامنے نکل کر نہیں آئی تھی۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ نے کہا ہے کہ اندرا ساہنی فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مہاراشٹر میں کوئی ایمرجنسی نہیں تھی کہ مراٹھا ریزرویشن ضروری ہو۔ اب تک مراٹھا ریزرویشن سے ملی نوکریاں اور کالج میں داخلے برقرار رہے گا۔ مزید ریزرویشن نہیں ملے گا۔ پانچ ججوں کی بینچ میں سے تین ججوں نے کہا کہ معاشرتی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقے کا تعین ریاستی حکومتیں نہیں کرسکتی ہیں ، یہ مرکزی حکومت کا اختیار ہے۔ جب کہ دونوں ججوں نے کہا کہ تعلیمی طور پر پسماندہ طبقے کا تعین ریاستی حکومتوں کے علاوہ مرکزی حکومت کرسکتی ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
گزشتہ26 مارچ کو سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھ لیاتھا۔ جسٹس اشوک بھوشن کی سربراہی والی بنچ میں جسٹس ایل ناگیشورا راو ، جسٹس ایس عبدالنظیر ، جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس ایس رویندر بھٹ شامل ہیں۔ 9 ستمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے مہاراشٹرا میں مراٹھا ریزرویشن پر روک لگاتے ہوئے اس معاملے کو پانچ ججوں یااس سے زیادہ کی تعداد والی بنچ کو غور کرنے کے لیے ریفر کر دیا تھا۔ </p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
واضح ہو کہ27 جون 2019 کو بامبے ہائی کورٹ نے مراٹھا ریزرویشن کی جواز کو برقرار رکھا تھا لیکن اسے گھٹا کر 16 فیصد سے کم کردیا۔ بامبے ہائی کورٹ نے مہاراشٹرا حکومت کے 16 فیصد ریزرویشن کو کم کرکے تعلیم کے لئے 12 فیصد اور ملازمتوں کے لئے 13 فیصد کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ کوٹہ نامناسب ہے۔</p>

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago