<div class="pull-right">
<div class="print-icons"></div>
</div>
<div class="innner-page-main-about-us-content-right-part">
<div class="text-center">
<h2>بلدیاتی ٹھوس کچرے کی پائیدار پروسیسنگ: ’ویسٹ ٹو ویلتھ‘
<span id="ltrSubtitle"></span></h2>
</div>
<div class="ReleaseDateSubHeaddateTime text-center pt20"></div>
<div class="pt20"></div>
<p dir="RTL">بڑھتی ہوئی آبادی اور تیز رفتاری سے ہورہی شہر کاری کے سبب ملک کو کچرا بندوبست کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اندازہ ہے کہ کچرے کا حجم 2030 تک موجودہ 62 ملین ٹن سے بڑھ کر تقریباً 150 ملین ٹن ہوجائے۔ بغیر کسی مناسب سائنٹفک ٹریٹمنٹ کے موجودہ شرح سے کچرے کی اندھادھند ڈمپنگ کے سبب ہر سال لینڈفل ایریا کی بڑی ضرورت درپیش ہوگی۔ اس صورت حال نے موجودہ تناظر میں ٹھوس کچرے کے سائنٹفک بندوبست کی اہمیت کو ناگزیر بنادیا ہے۔</p>
<p dir="RTL"><strong>پلازما آرک گیسی فکیشن پروسیس کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹھوس کچرے کا ٹریٹمنٹ اور ڈسپوزل </strong>ماحولیات دوست ٹھوس کچرے کے بندوبست کا ایک متبادل ہے، جس میں 95 فیصد کچرے کا نپٹارہ ممکن ہے۔ پلازما گیسی فکیشن پروسیس ، پلازما ری ایکٹر کے اندر ہائی ٹمپریچر پلازما آرک (3000 ڈگری سیلسیس سے زیادہ) پیدا کرنے کے لئے بجلی کا استعمال کرتا ہے، جو کچرے کو <strong>سن گیس</strong> میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس سن گیس سے جب، کیٹیلیٹک کنورٹر، ریڈوکس ری ایکٹر، سائیکلون سیپریٹر، اسکربر اور کنڈینسر پر مشتمل گیس پیوری فکیشن کے ایک سلسلے سے گزارا جاتا ہےتو یہ گیس والے انجنوں میں بجلی پیدا کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ باقی بچی ہوئی راکھ کو سیمنٹ کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے، جس سے تعمیراتی کاموں میں استعمال کرنے کے لئے ری سائیکلڈ اینٹیں تیار کی جاسکتی ہیں۔ اس طرح سے سائنس ’ویلتھ فرام ویسٹ‘ یعنی کچرے سے دولت کے حصول میں مدد کرتا ہے۔</p>
<p dir="RTL">تاہم یہ ٹیکنالوجی اقتصادی اعتبار سے قابل عمل نہیں ہے، کیونکہ اس ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے کچرے کے ٹریٹمنٹ کے لئے جتنی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ الیکٹروڈ کے استعمال کی اعلیٰ شرح کی وجہ سے یہ خرچ مزید بڑھ جاتا ہے، جس کی وجہ سے یہ پروسیس مہنگا ہوجاتا ہے اور یہ اقتصادی اعتبار سے کوئی معقول متبادل نہیں ہے۔</p>
<p dir="RTL">مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں جو ٹھوس بلدیاتی کچرا پیدا ہوتا ہے وہ زیادہ تر نامیاتی کچرے کے ایک بڑے جزو پر مشتمل ہوتا ہے۔ نامیاتی کچرے کے غیر سائنسی نپٹارے سے گرین ہاؤس گیس (جی ایچ جی) اور ہوا کو آلودہ کرنے والی دوسری چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایم ایس ڈبلیو کی غیر مؤثر پروسیسنگ بھی کئی طرح کی بیماریوں کی اصل وجہ ہے، کیونکہ لینڈفل، پیتھوجینس، بیکٹیریا اور وائرس کے لئے کنٹیمنیشن ہب میں بدل جاتے ہیں۔ عام طور پر استعمال میں لائی جانے والی پروسیسنگ ’’کمپوسٹنگ‘‘ کا بھی صنعت کاروں کو مؤثر اقتصادی فائدہ نہیں مل پاتا، کیونکہ اس کے لئے زیادہ لینڈ اسپیس، زیادہ لیبر، مؤثر ڈس انفیکشن کے لئے پیسٹورائزیشن کی ضرورت ہوتی ہے اور بھاری میٹلس کی موجودگی کی موجودگی کی وجہ سے اس کے استعمال کو محدود کردیا گیا ہے۔ برسات کے موسم کے دوران کمپوسٹنگ کا بندوبست حددرجہ نمی کی موجودگی کی وجہ سے مشکل ہوجاتا ہے۔</p>
<p dir="RTL"><strong>جدید ٹیکنالوجی</strong></p>
<p dir="RTL">سی ایس آئی آر – سی ایم ای آر آئی کے ذریعے تیارہ کردہ میونسپل سولڈ ویسٹ پروسیسنگ فیسیلٹی سے نہ صرف ٹھوس کچرے کے غیر مرکوز ریزہ کاری میں مدد ملتی ہے بلکہ سوکھی پتیوں، سوکھی گھاسوں وغیرہ جیسی بیکار سمجھی جانے والی اور بڑی مقدار میں دستیاب اشیاء سے گراں قدر مصنوعات کی تیاری میں بھی مدد ملی ہے۔ ایم ایس ڈبلیو پروسیسنگ فیسیلٹی کو سائنٹفک طریقے سے ٹھوس کچرے کو نپٹارے کے لئے حکومت ہند کی ماحولیات، جنگلات اور آب و ہوا کی تبدیلی کی مرکزی وزارت کے ذریعے مقررہ ٹھوس کچرا بندوبست ضوابط (ایس ڈبلیو ایم) 2016 پر عمل درآمد کرتے ہوئے ڈیولپ کیا گیا ہے۔ سی ایس آئی آر – سی ایم ای آر آئی کی بنیادی توجہ عام کنبوں کو ایڈوانس سگریگیشن (جھانکنے) تکنیک کے ذریعے چھانٹنے کی ذمے داری کے بوجھ سے آزاد کرنا ہے۔ مشینی سگریگیشن سسٹم ٹھوس کچرے کو میٹالک کچرے (میٹل باڈی، میٹل کنٹینر وغیرہ)، بایو گریڈیبل ویسٹ (کھانے پینے کی چیزیں، سبزیاں، پھل، گھاس وغیرہ)، نان بایوگریڈیبل (پلاسٹک، پیکیجنگ مٹیریل، پاؤچیز، بوتل وغیرہ) اور اِنرٹ (شیشہ، پتھر وغیرہ) کچروں میں چھانٹ / بانٹ دیتا ہے۔ کچرے کا بایو – ڈیگریڈیبل کمپونینٹ سڑگل کر اینیروبک ماحول میں تحلیل ہوجاتا ہے، جسے عام طور پر بایو – گیسی فکیشن کہا جاتا ہے۔ اس پروسیس میں بایو گیس آرگینک میٹر سے کنورژن کے ذریعے نکلتی ہے۔ اس بایو گیس کا استعمال کھانا پکانے کے مقصد سے بطور ایندھن کیا جاسکتا ہے۔ اس گیس کا استعمال بجلی پیدا کرنے کے لئے گیس انجنوں میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ بایو گیس پلانٹ کے باقیماندہ ٹھوس مادے (سلری) کو قدرتی طریقے سے کمپوسٹ میں تبدیل کردیا جاتا ہے، جسے ورمی – کمپوسٹنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کام اَرتھ وارمس کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ ورمی – کمپوسٹ کا استعمال نامیاتی کاشت کاری میں کیا جاتا ہے۔</p>
<p dir="RTL"><strong>بایوماس ویسٹ ڈسپوزل</strong></p>
<p dir="RTL">بایو ماس ویسٹ جیسے سوکھی پتیوں، مردہ شاخوں، سوکھی گھاسوں وغیرہ کو پہلے مناسب سائز میں توڑ کرکے ڈسپوز کیا جاتا ہے، اس کے بعد اسے بایو گیس ڈائجیسٹر کی سلری میں ملایا جاتا ہے۔ یہ مکسچر بریکویٹ کے لئے فیڈ اسٹاک (خام مال) ہے، جس کا استعمال کھانا پکانے کے لئے بطور ایندھن کیا جاتا ہے۔ ان بریکویٹس کا استعمال سن گیس کی تیاری کے لئے گیسی فائر میں بھی کیا جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سن گیس کا استعمال گیس والے انجن میں بجلی پیدا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ بریکویٹ کو جلانے سے جو راکھ پیدا ہوتی ہے اس سے اینٹیں تیار کرنے کے لئے ایک مناسب مقدار میں سیمنٹ اور پانی میں ملایا جاتا ہے۔ ان اینٹوں کا استعمال تعمیراتی کاموں کے لئے کیا جاتا ہے۔</p>
<p dir="RTL"></p>
<p dir="RTL"><strong>پولیمر ویسٹ ڈسپوزل</strong></p>
<p dir="RTL">پولیمر ویسٹ جو کہ پلاسٹک، سینیٹری وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے، کو دو اہم پروسیس یعنی پائیرولیسس اور پلازما گیسی فکیشن کے ذریعے ٹھکانے لگایا جاتا ہے (ڈسپوز کیا جاتا ہے)۔ پائیرولیسس پروسیس میں پولیمر ویسٹ کو مناسب کیٹیلسٹ کی موجودگی میں ایک اینیروبک ماحول میں 400 سے 600 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت تک گرم کیا جاتا ہے۔ گرم کرنے کے نتیجے میں پولیمر کچرے کا وولیٹائل میٹر باہر آجاتا ہے، جو کنڈنسیشن کے بعد پائیرولیسس آئل دیتا ہے۔ نان کنڈینس یعنی بغیر جمی ہوئی سن گیس اور خام پائیرولیسس آئل پیوری فکیشن کے بعد چیزوں کو گرم کرنے کے لئے دوبارہ استعمال میں لایا جاتا ہے اور اس سے خودکفالتی کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ باقی بچی ہوئی ٹھوس شئے جسے چار کہا جاتا ہے، کو بریکویٹ کی تیاری کے لئے بایوگیس سلری میں ملایا جاتا ہے۔</p>
<p dir="RTL"></p>
<p dir="RTL"><strong>سینیٹری ویسٹ ڈسپوزل</strong></p>
<p dir="RTL">ماسک، سینیٹری نیپکن، ڈائیپرس وغیرہ پر مشتمل سینیٹری آئٹمس کو ہائی ٹمپریچر پلازما کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈسپوز کیا جاتا ہے۔ ایم ایس ڈبلیو فیسیلٹی خصوصی ڈِس انفیکشن کی صلاحیتوں سے لیس ہوتی ہے، تاکہ اس سے یو –ی- سی لائٹس اور ہاٹ- ایئر کنویکشن میتھڈ کے ذریعے کووڈ چین کو توڑنے میں مدد ملے۔ سی ایس آئی آر – سی ایم ای آر آئی کے ذریعے جو ڈی سینٹرلائزڈ سولڈ ویسٹ مینجمٹ پلانٹ تیار کیا گیا ہے اس کے اندر کچروں میں موجود کووڈ اور دیگر وائرس سمیت ٹھوس کچرے کا سائنٹفک طریقے سے بندوبست کرنے کے سبھی امکانات موجود ہیں۔ چھتوں کے اوپر لگے ہوئے سولر پینل کے ذریعے توانائی کی ضرورت کے اعتبار سے مربوط ایم ایس ڈبلیو پائلٹ پلانٹ خودکفیل بھی ہیں، جو ایک مینی- گرڈ کو اضافی بجلی کی سپلائی بھی کرسکتے ہیں۔<span dir="LTR"><img src="file:///C:/Users/acer/AppData/Local/Temp/msohtmlclip1/01/clip_image005.jpg" alt="Science-3.jpg" /></span></p>
<p dir="RTL">ڈی سینٹرلائزڈ (0.5 سے 5.0 ٹن / یومیہ) ایم ایس ڈبلیو ٹیکنالوجی اور اس کی پائیدار پروسیسنگ ایسے مواقع پیدا کرتی ہے جس سے 100 گیگاواٹ سولر پاور پیدا کرنے اور ’’زیرو- ویسٹ اور زیرو- لینڈفل ایکولوجی‘‘ والے شہر کے خواب کو حقیقت کی شکل دے سکے، اور پروسیس – انگیجمنٹ اور مینوفیکچرنگ کے ذریعے ’’روزگار پیدا کرنے کا ذریعہ‘‘ بن سکے، جس سے ملک بھر میں ایم ایس ای، اسٹارٹ اپ اور متعدد چھوٹی کمپنیوں کو مدد مل سکتی ہے۔</p>
</div>.
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…