مرکزی وزیرزراعت جناب نریندر سنگھ تومر کا کہنا ہے کہ فصلوں کے ٹھونٹھ کو ٹھکانے لگانا ہر ایک کی اجتماعی ذمہ داری ہے
زراعت اور کسانوں کی بہبود کی مرکزی وزارت کی رہنمائی میں کسانوں کی طرف سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ استعمال کے مقصد کے ساتھ انڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ تیار کردہ پوسا ڈیکمپوزر کا آج دہلی کے پوسا میں مظاہرہ کیا گیا۔ اس ورکشاپ کا زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ تومر کی قیادت میں اہتمام کیا گیا جس میں سینکڑوں کسان موجود تھے اور ہزاروں کسانوں نے بھی 60 کرشی وگیان کیندروں کے ذریعے غیر روایتی طور پر شرکت کی۔
ڈیکمپوزر کی ٹیکنالوجی کو پوسا انسٹی ٹیوٹ نے یو پی ایل سمیت دیگر کمپنیوں کو منتقل کر دیا ہے جس کے ذریعے اسے تیار کیا جا رہا ہے اور کسانوں کو دستیاب کرایا جا رہا ہے۔ان سب کے ذریعے پچھلے 3 برسوں میں پوسا ڈیکمپوزر کا استعمال اور مظاہرہ اتر پردیش میں 26 لاکھ ایکڑ میں کیا گیا ہے۔ اس مظاہرے کیلئے پنجاب میں 5 لاکھ ایکڑہریانہ میں 3.5 لاکھ ایکڑ اور دہلی میں 10 ہزار ایکڑ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ یہ ڈکمپوزر سستا اور ملک بھر میں آسانی سے دستیاب ہے۔
پوسا ڈکمپوزر کے استعمال سے مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی بھی بڑھے گی
ورکشاپ میں مرکزی وزیر جناب تومر نے کہا کہ آلودگی کو روکنے کے لئے دھان کی جڑوں کا مناسب انتظام سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ ریاستی حکومتیں پنجاب، ہریانہ،یو پی اور دہلی کو مرکز کے ذریعہ اس انتظام کے لئے 3 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم فراہم کی گئی تھی۔ پنجاب کو تقریباً 14،500 کروڑ روپے کا سب سے زیادہ فنڈ مختص کیا گیا جب کہ ہریانہ کو 900 کروڑ روپے یوپی کو 713 کروڑ روپے اور دہلی کو 6 کروڑ روپے ملے۔ اس میں سے تقریباً ایک ہزار کروڑ روپے ریاستوں کے پاس ہیں جن میں صرف پنجاب کے پاس491 کروڑ روپے ہیں۔
جناب تومر کا کہنا ہے کہ اگر ریاستیں 2.07 لاکھ مشینوں کا مؤثر طریقے سے استعمال کریں تو فصلوں کے ٹھونٹھ جلانے کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے
جناب تومر نے کہا کہ مرکز کی طرف سے فراہم کردہ مدد سے فصلوں کی جڑوں کے انتظام کے لئے ریاستوں کو دستیاب 2.07 لاکھ مشینوں کے زیادہ سے زیادہ استعمال سے اس مسئلہ کا جامع حل ممکن ہے۔ اس کے علاوہ اگر پوسا انسٹی ٹیوٹ کے تیار کردہ پوسا ڈیکمپوزر کو استعمال کیا جائے تو مسئلہ کے حل کے ساتھ ساتھ کاشت کے قابل زمین کی زرخیزی بھی بڑھے گی۔
جناب تومر نے مزید کہا کہ اس سے مٹی نہ صرف محفوظ رہے گی بلکہ آلودگی میں بھی کمی آئے گی اور کسانوں کو کافی فائدہ پہنچے گا۔
جناب تومر نے کہا کہ دھان کے بھوسے پر سیاسی بحث سے زیادہ اہم اس کے انتظام اور اس سے چھٹکارا پانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھونٹھ جلانے کا مسئلہ سنگین ہے اور اس مسئلہ پر الزامات اور جوابی الزامات لگانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیںیا پھر کسان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملک میں زراعت پھلے پھولے اور کسان خوشحال ہوں۔ وزیر موصوف نے مزید کہا کہ ٹھونٹھ جلانے سے ماحولیات کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے لہٰذا اس سے نمٹنے کے لئے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیے اور پھراس راستے پر چلنا چاہیے۔
ورکشاپ میں ان ریاستوں کے کچھ کسانوں نے جہاں پوسا ڈیکمپوزر کا استعمال کیا گیا ہے، اپنے مثبت تجربات بتائے جبکہ لائسنس یافتہ نے کاشتکاروں کو پوسا ڈیکمپوزر کے فوائد سے بھی آگاہ کیا۔ زراعت کے مرکزی سکریٹری جناب منوج آہوجا، انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ کے ڈی ڈی جی (این آر ایم) ڈاکٹر ایس کے چودھری، انڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشوک کمار سنگھ نے بھی ورکشاپ سے خطاب کیا۔ جناب تومر اور پوسا آئے کسانوں نے کھیت کا دورہ کرتے ہوئے پوسا ڈیکمپوزر کی لائیو کارکردگی کو دیکھا اور اسٹالوں کے بارے میں دریافت کی۔ نریندر سنگھ تومر
دہلی کے پوسا میں کسانوں کی ایک ورکشاپ سے خطاب میں جناب تومر نے بتایا کہ مرکز نے پنجاب، ہریانہ،یوپی اور دہلی کو 3000 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم مختص کی ہے
مرکزی حکومت فصلوں کی ٹھونٹھ کے انتظام کو لے کر سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں تمام ذمہ داران کے ساتھ کئی نشستیں کی گئی ہیں۔ 19 اکتوبر کو مرکزی وزیر جناب تومر، ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے وزیر جناب بھوپیندریادو اور حیوانات، ماہی پروری اور ڈیری کے وزیر جناب پرشوتم روپالا کی موجودگی میں متعلقہ ریاستی حکومتوں کے ساتھ بات چیت کی گئی اور اس سلسلے میں ضروری ہدایات جاری کی گئیں۔ اس سے پہلے 21 ستمبر کو جناب تومر کی صدارت میں ریاستوں کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ زراعت کے سکریٹری اور جوائنٹ سکریٹری کی سطحوں پر بھی کئی میٹنگیں ہوئیں اور ریاستوں کو مناسب مشورے اور ہدایات دی گئیں۔ آج کا ورکشاپ اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے جس میں جناب تومر نے ریاستی حکومتوں، کسانوں اور زرعی سائنسدانوں سے فصلوں کی ٹھونٹھ کو ٹھکانے لگانے کے لئے مل کر کام کرنے کی اپیل کی۔