آفتاب سکندر
کسی بھی فہیم کے فہم میں کسی جامعہ العلوم ہستی کے جنم دن کی جانکاری ہونا اُس کے نہ صرف اُس ہستی کے متعلق عقیدت و احترام کے رشتے کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ اُس ذہین و فتین حضرت کے کارہائے نمایاں سے روشنائی کی بھی زینت ہے. جہاں مجھ جیسے بے ہنر اور ناچیز کی وابستگی کا تعلق ہے تو میں طبعیات کا ادنیٰ ترین طالب علم ہوں۔
جہاں طبعیات میں تشنگانِ علم اور بہت سی اعلی اور قد آور شخصیات کے نظریات کے تاثر کو قبول کرتے ہوئے سراہتے ہیں اور ان کو عظیم و علیم گردانتے ہیں وہیں پر البرٹ آئن شٹائین نامی ہستی کا بھی طوطی بولتا ہے۔
اس عظیم و فہیم، فصیح و بلیغ ہستی کا جنم آج ہی کے دن ہوا۔ طبعیات میں انہوں نے بہت سے نئے تصورات و تفکرات دیے۔ جو ان کی لیاقت و قابلیت، اہلیت و صلاحیت اور فہم و فراست کی منہ بولتی تصویر ہیں۔
قدیم تصوراتِ طبعیات میں یہ یقین کیا جاتا تھا کہ ایتھر نامی مرکب کی مرہون منت یہ خلاء کی سیج سجی ہوئی ہے مگر یہ آئن شٹائین ہی وہ شخصیت تھے
جنہوں نے اس غلط تصور کا رد کرتے ہوئے بتلایا کہ بھیا خلا نامی شے کسی بھی شے کی غیر موجودگی کا نام ہے جس میں یہ کائنات پھیل رہی ہے. پھر ایک بہت بڑی رہنمائی موصوف نے اس مساوت سے کی کہ مادہ توانائی کی ہی شکل ہے۔
ان کے دیے گئے اسی تصور کی بنا پر آج ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں اور جوہری توانائی کے میدان میں جو مقام حاصل کرچکے ہیں وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
کائنات سپیس ٹائم فیبرک سے بنی ہے اور وقت کچھ بھی نہیں۔نظریہ اضافیت پیش کیا جس میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ کوئی بھی شے جب روشنی کی رفتار سے سفر کرنا شروع کرتی ہے تو وقت اُس کے لئے تھم جاتا ہے اور یہ کہ جاذبیت، کششِ ثقل شعاؤں کے روپ میں وجود پذیر ہے جس کو حال ہی میں ثابت بھی کیا گیا ہے۔
ان کے پیش کردہ تمام نظریات و تصورات طبعیات میں بہت ہی اہمیت کے حامل تھے اور طبعیات کے لیے وسعتوں کے دروازے کھول کر طبعیات کو بحرِ علوم کا سیلِ رواں بنا دینے والے تھے
اور ان ہی کی بدولت طبعیات کا قعرو قلزم اوج کمال پہ رواں دواں رہا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نوبل انعام اُن کو ان تصورات کی بجائے فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ کے نظریے پر دیا گیا
جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ روشنی جب بھی کسی میٹل پر گرتی ہے تو اس سے الیکٹران کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ نظریہ بھی اُن تمام نظریات کی طرح طبعیات کے لیے نئی جہتیں کھولنے والا تھا۔
آئن شٹائین نے بہت سے سوالات اُٹھا ئے اور ان پر مفصل گفت و شنید بھی کی۔جن میں یہ ایک بنیادی سوال تھا کہ اگر ہم کسی مادہ کو دیکھ نہیں پاتے تو کیا پھر بھی وہ مادہ وجود رکھتا ہے یا نہیں؟
یا یہ کہ ہم مادہ کی کمیت اور رفتار کو ایک ہی وقت میں معلوم کرسکتے ہیں؟
آئن شٹائین کا اُٹھایا گیا یہ سوال بہت ہی عمدہ اور بہترین تھا دلچسپ و حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ کہ اگر کوئی مادی جسم خلا میں سفر کر رہا ہو اور اُس کے گرد کوئی ریفرنس پوائنٹ نہ ہو تو کیا وہ محوِ حرکت ہوگا بھی کہ نہیں؟
آئن شٹائین کے نظریات و تصورات کی ہی بدولت کوانٹم مکینیات معرضِ وجود میں آئی اور یوں تشنگانِ علوم و فنون کے لئے طبعیات کی ایک نئی اور پرکشش کائنات معرضِ وجود میں آئی۔ طبعیات کو ایسے درخشاں اختر کی ضرورت ہر دور میں رہے گی۔
یہ پوسٹ فورم پر دینے ڈ کا اول و آخر مقصد گروپ ممبران کو طبعیات کے نظریات سے آگہی دینا اور طبعیات دان کے کارناموں سے آگہی دینا ہے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…