Categories: فکر و نظر

آسان نہیں ہے مہاتما گاندھی ہونا

آسان نہیں ہے مہاتما گاندھی ہونا
موہن داس کرم چند گاندھی 2 اکتوبر سنہ 1869کو گجرات کے کاٹھیا واڑ کے پوربندر میں پیدا ہوئے تھے۔ دہلی میں 30جنوری سنہ 1948کو ناتھو رام گوڈسے نے انھیں گولی مار کر قل کر دیا۔ 78سال کے باپو ”ہے رام“ کہتے ہوئے زمین پر گرے اور اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ گاندھی کا قتل ہوا لیکن ”گاندھی واد“ زندہ ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی کو مہاتما گاندھی، راشٹر پتا اور باپو بننے کے لئے بہت تیاگ کرنا پڑا تھا۔ وہ اہنشا یعنی عدم تشدد کے بڑے پجاری تھے۔ لوگ انھیں پیار سے باپو کہتے تھے، رابندر ناتھ ٹیگور نے انھیں مہاتما کہہ کر بلایا۔ انھیں اس ملک نے راشٹر پتا کا درجہ دیا۔
موہن داس کرم چند گاندھی پیشے سے ایک وکیل (بیرسٹر) تھے۔ جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران انھوں نے کالے لوگوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف پُر امن احتجاج کیا۔ ہندوستان واپس آئے تو انڈین نیشنل کانگریس کے بینر تلے انگریزوں کے خلاف جنگ کو منظم کیا اور کوشش کی کہ اہنشا کے راستے پر چل کر ملک کو آزاد کرایا جائے۔ مہاتما گاندھی نے امن اور شانتی کے راستے پر چل کر ملک کو آزاد کرایا۔ گاندھی جی کا خیال تھا کہ منزل پر پہنچنے کے لئے ہمیں غلط راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ منزل بھی صحیح ہو اور راستہ بھی درست ہونا چاہئے۔ بعض احباب کا خیال تھا کہ منزل ہی اصل ہے، راستہ کوئی بھی ہو۔ دراصل اس وقت سب کے لئے منزل آزادی تھی۔ لیکن حصول آزادی کے لئے کون سا راستہ اختیار کیا جائے یہ بھی اہم تھا۔ خود کانگریس میں دو گروپ بن گئے۔ بال گنگا دھر تلک اور سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر چاہتے تھے اور مانتے تھے کہ انگریز آسانی سے ماننے والے نہیں ہیں۔ ان کے خلاف ہمیں ہتھیاروں سے جنگ لڑنی ہوگی۔ تشدد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ لیکن مہاتما گاندھی کو یقین تھا کہ اہنشا کے راستے پر چل کر بھی منزل یعنی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔
عدم تشدد کا فلسفہ دینے والے گاندھی نے خود کئی کتابیں لکھی ہیں اور ان پر بھی ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ گاندھی عظیم تھے، گاندھی سب کے پیارے تھے، گاندھی ہر ہندستانی کے دل میں بستے تھے۔ آج بھی گاندھی کے فلسفے کی ضرورت ہے۔ آج بھی دنیا کو امن کی ضرورت ہے۔ آج بھی ہندوستان اپنے گاندھی پر فخر کرتا ہے۔ آج بھی ہندوستان کو گاندھی کی ضرورت ہے۔ اسی لئے ہر سال دو اکتوبر کو ہم گاندھی جینتی منا کر نہ صرف گاندھی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں بلکہ گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے پر عمل پیرا ہونے کی عزم بھی کرتے ہیں۔ یہ عدم تشدد کا راستہ ہی دنیا کو پر امن بنا سکتا ہے۔.

inadminur

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

9 months ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

9 months ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

9 months ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

9 months ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

9 months ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

9 months ago