فکر و نظر

دارا شکوہ مغلیہ دور کا معارف پرور شہزادہ تھا:ڈاکٹر سیدتقی عابدی

جے این یو میں ” دارا شکوہ: فن اور شخصیت” کے موضوع پر ایک خصوصی خطبہ کا انعقاد مرکز مطالعات فارسی و مرکزی ایشیا کے زیر اہتمام ہوا۔ جس میں خصوصی مہمان مقرر کی حیثیت سے معروف محقق ڈاکٹر سید تقی عابدی نے شرکت کی۔

پروفیسر مظہر آصف نے شعبہ کی طرف سے مہمانوں کا نہایت دلکش انداز اور مسجع اسلوب میں استقبال کیا اور دارا شکوہ کی ہمہ جہتی اور علمی نبوغت کا ذکر کیا۔

صدر شعبہ پروفیسر اخلاق احمد آہن نے جلسہ کی صدارت کی اور نہایت بصیرت خیز انداز میں دارا کے فکری ابعاد کے سرچشمہ کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ دارا شکوہ نے اپنے دور کے عظیم ترین دانشوروں منجملہ قاضی محب اللہ اللہ آبادی، قاضی عبد الرشید، ملا محمود جونپوری نیز بابا لعل کے ساتھ مکاتباتی مباحث کی راہ استوار کی اور متصوفانہ مضامین کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔

مہمان مقرر ڈاکٹر سید تقی عابدی نے خطبہ کے آغاز میں دارا شکوہ کی زندگی اور تربیتی عناصر کی طرف تاریخی نقطہ نظر سے اشارہ کیا۔ انھوں نے دارا کے دیوان اکسیر اعظم کے متعلقہ مضامین کا استدراکی مطالعہ پیش کرتے ہوئے فر مایا کہ اگرچہ اس کا دیوان، حجم کے اعتبار سے مختصر ہے لیکن نظریاتی ابلاغ اور معنوی بواطن کی حیثیت سے بہت اہم ہے۔ البتہ بعض وجوہات کی بنا پہ اس کی شخصیت کو مبہم کیا گیا بعض غیر ضروری خطوط غلط طور پہ اس سے منسوب کئے گئے۔ دارا شکوہ اپنے دور کا وہ مظلوم شخص ہے جسے اظہار حق کی سزا ملی ۔

اس میں شریک معروف اردو ناقد و محقق و شاعر جناب خلیل الرحمان ایڈوکیٹ نے کہا کہ دارا اس لحاظ سے بھی مظلوم تھا کہ اس کی تصنیفات کو وہ توجہ نہ مل سکی جس کی وہ حقدار ہیں۔ انھوں نے اس کے آثار کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مجمع البحرین اپنے آپ میں ایک بے نظیر کتاب ہے۔ انھوں نے شعبہ فارسی کے طلبا سے کہا کہ وہ اس موضوع پہ خاص منہج کے ساتھ تحقیق کریں.

ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے چئیر مین پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے دارا شکوہ کی علمی وجاہت کا نہایت شاندار اسلوب میں مختصرا ذکر کیا اور مہمان مقرر کا تعارف کرایا۔ ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو کے استاذ اور معروف ناقد پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ دارا مظلوم ضرور تھا البتہ مستقبل بہرحال دارا شکوہ کا ہے۔

آخر میں علی اصغر الحیدری ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی نے کلمات تشکر ادا کیا۔ اس نشست میں فارسی شعبہ کے دیگر اساتذہ بشمول پروفیسر عبد الخالق رشید، ڈاکٹر فتانہ نجیب اللہ، ڈاکٹر علاء الدین شاہ، ڈاکٹر مظہر الحق، ڈاکٹر انور خیری اور ڈاکٹر قمر حیدر موجود تھے۔ پروگرام کے اخیر میں جناب غالب زیاد ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی کوششوں سے منعقدہ جشن ہفتہ نوروز کے پروگرام کی مناسبت سے تقسیم اسناد کا منظر کافی دل آویز تھا جو ڈاکٹر سید تقی عابدی کے ہاتھوں انجام پایا ۔ جناب صدام حسین نے اس علمی نشست میں نظامت کی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔

Dr. R. Misbahi

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago