فکر و نظر

کلاسیکی لب و لہجے کے لیے معروف،ممتاز اور مقبول شاعر”کلیم عاجزؔ“کا یومِ وفات

نام کلیم احمد اور تخلص عاجزؔ ہے۔ 11؍اکتوبر 1920 میں قصبہ تلہاڑہ، ضلع پٹنہ میں پیدا ہوئے۔کلاس شروع ہوتے ہی والد کا انتقال ہوگیا،چنانچہ پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ 1946 میں بہارمیں فساد کی آگ بھڑک اٹھی،گھر کے تمام افراد شہید کردیے گئے۔ ان جاں گسل حالات کا ذہن پر بہت برا اثر ہوا اور دنیا ومافیہا کی خبر نہ رہی۔لمبے وقفے کے بعد1956 بی اے (آنرز)اور1958 میں ایم اے کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اول آئے اور طلائی تمغہ حاصل کیا۔’’بہار میں اردو شاعری کے ارتقا‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر 1965 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔پٹنہ کالج، پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر کے منصب پر فائز ہوئے۔ مسلم ہائی اسکول کے نویں جماعت میں جب زیر تعلیم تھے تو چند غزلیں لکھ کر اسکول کے ہیڈ مولوی ثمر آروی سے اصلاح لی۔پہلی او رآخری اصلاح یہی تھی۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:

’مجلسِ ادب‘، ’وہ جوشاعری کا سبب ہوا‘، ’جہاں خوش بو ہی خوش بو تھی‘، ’یہا ں سے کعبہ ، کعبے سے مدینہ‘، ’اک دیس ایک بدیسی‘۔

14؍فروری 2015 کو ڈاکٹر کلیم عاجزؔ انتقال کر گئے۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:172

ممتاز مقبول شاعر کلیم عاجزؔ صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت

آزمانا  ہے  تو  آ  بازو  و  دل  کی   قوت

تو بھی شمشیر اٹھا ہم بھی غزل کہتے ہیں

اپنا لہو بھر کر لوگوں کو بانٹ گئے پیمانے لوگ

دنیا بھر کو یاد رہیں گے ہم جیسے دیوانے لوگ

ہاں کچھ بھی تو دیرینہ محبت کا بھرم رکھ

دل سے نہ آ دنیا کو دکھانے کے لئے آ

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ

پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو

مے کدے کی طرف چلا زاہد

صبح کا بھولا شام گھر آیا

اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں

کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے

مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں

وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں

تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں

زندگی دردِ محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

سینے کے زخم پاؤں کے چھالے کہاں گئے

اے حسن تیرے چاہنے والے کہاں گئے

تو رئیس شہر ستم گراں میں گدائے کوچۂ عاشقاں

تو امیر ہے تو بتا مجھے میں غریب ہوں تو برا ہے کیا

یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا

وہ دکھائیں رقص ستم گری تو غزل کا ساز بجائے جا

یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا

جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا

یہ وعظ وفاداری عاجزؔ نہ بدل دینا

وہ زخم تجھے دیں گے تم ان کو غزل دینا

ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام

پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو

یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا

وہ دکھائیں رقص ستم گری تو غزل کا ساز بجائے جا

غم دل ہی کے ماروں کو غمِ ایام بھی دے دو

غم اتنا لینے والے کیا اب اتنا غم نہیں لیں گے

امتحان شوق میں ثابت قدم ہوتا نہیں

عشق جب تک واقف آداب غم ہوتا نہیں

حقیقتوں کا جلال دیں گے صداقتوں کا جمال دیں گے

تجھے بھی ہم اے غم زمانہ غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے

کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے

اب تو کچھ فیصلہ کر جانے کو جی چاہے ہے

نظر کو آئنہ دل کو ترا شانہ بنا دیں گے

تجھے ہم کیا سے کیا اے زُلفِ جانانہ بنا دیں گے

شکایت ان سے کرنا گو مصیبت مول لینا ہے

مگر عاجزؔ غزل ہم بے سنائے دم نہیں لیں گے

Dr M. Noor

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago