ڈاکٹرعظیم راہی،اورنگ آباد
۲۰۱۷ء سے اواخر میں، دسمبر کے پہلے ہفتہ میں پونا سے نذیربھائی (نذیرفتح پوری) کا فون آیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہماری فون پر تقریباً ہر ایک دو روز میں گفتگو ہوتی رہتی ہے البتہ اس بار انھوں نے جو بات کہی تھی وہ میرے لیے ضرور نئی تھی اور فون پر اطلاع دی کہ فروری کے پہلے ہفتے میں رتناگری میں ’’کوکن میں اردو ادب‘‘ کے موضوع پر ایک نیشنل سمینار طے ہوا ہے۔ میں نے پوچھا : ’’کون سمینار کا انعقاد کررہے ہیں‘‘ تو انھوں نے فوراً نام بتایا کہ : ’’ڈاکٹردانش غنی‘‘ اور آگے کہا کہ : ’’میں نے تمھارا نام اور موبائل نمبر دے دیا ہے فون آجائے گا۔‘‘ میں نے پھر پوچھا : ’’کون دانش غنی؟‘‘ تو میرے سوال پر وہ میری طبیعت اور مزاج سے واقفیت کی بناء پر مسکراتے ہوئے بولے : ’’بے چین کیوں ہورہے ہو ان کا فون آجائے گا۔
فون آنے پر ساری تفصیل پوچھ لینا۔‘‘ یہ سن کر میں نے نذیربھائی سے مزید کچھ استفسار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ دوسرے دن واقعی دانش غنی کا فون آگیا۔ جانے کیوں پہلی مرتبہ بات کر کے یوں لگا جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ انھوں نے مجھے سمینار میں میرے مقالے کا عنوان بتایا اور ساتھ ہی یہ شرط عائد کردی کہ ’’ایک مہینے کے اندر آپ اپنا مقالہ ٹائپ کر کے میرے پتے پر بھجوادیں۔‘‘ جو میرے لیے ضرور نئی بات تھی۔ آگے بتایا کہ’’ یہ مقالے کتابی شکل میں چھپ کر آجائیں گے اور سمینار کے دن اس موضوع پر لکھے گئے مقالوں پر مشتمل کتاب کا اجرا بھی عمل میں آجائے گا۔‘‘ پہلے تو مجھے حیرت ہوئی کہ عام طور پر سمیناروں میں یہ اعلان ضرور ہوتا ہے کہ مقالہ کی صرف تلخیص پڑھیں اور پہلے مقالہ جمع کروادیں ، بعد میں کتابی شکل میں چھپ کر آجائے گا تو کبھی کبھار چھپ کر بھی آجاتا ہے مگر ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ کم از کم میرا تجربہ تو یہی کہتا ہے۔ لیکن اس سمینار میں ایسا عجوبہ ہوجائے گا یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اس طرح کا یہ میرا پہلا ہی اتفاق ہے۔ یہاں واقعی ایسا ہوا جو مجھے کسی کارنامے سے کم نہیں لگتا اور اِسے انجام دینے میں دانش کے ساتھ نذیرفتح پوری بھی شامل تھے۔
خیر‘ میں نے ایک تو نذیربھائی کی وجہ سے اور دوسرے صحت مند مقام پر جانے کا پہلا موقع ہاتھ آنے کے سبب فوراً حامی بھرلی۔ لیکن ان دونوں وجوہات سے بڑھ کر جو بات میرے لیے زیادہ اہم تھی وہ دانش غنی کی نرم دم گفتگو کا انداز، اس گفتگو کے سحر میں، میں دیر تک کھویا رہا اور سوچنے لگا اس قدر اپنائیت بھرے لہجے میں بات کرنے والا بھلا یہ بندہ کون ہوسکتا ہے۔ جو پہلی ملاقات میں وہ بھی موبائل فون پر اس قدر محبتوں اور عقیدتوں سے بھرا لہجہ جو تادیر تاثر کی دنیا میں گم کردے۔ تو میں نے فوراً حسب عادت اپنے استاد محترم اور بزرگ دوست ڈاکٹرمحبوب راہی سے فون پر بات کی تو جادوئی پتہ چلا کہ موصوف کوئی اور نہیں ، اجنبی بھی نہیں ، علاقہ ودربھ کے ممتاز و مقبول جدید لہجے کے شاعر عبدالرحیم نشترؔ کے فرزنداکبر ہیں۔ پھر گفتگو کا اسرار بھی کھل گیا۔ پھر کیا تھا سارے راز عیاں ہوگئے۔ محبت کا تعلق اور اس ادبی رشتے کی خوشبو کا اثر میرے رگ و پے میں سما گیا اور میں دیر تک اس سرور میں جھومتا رہا۔ ان کے والد سے میرا رابطہ بھی رہا تھا اور گہرا قلبی لگاؤ اور کئی ملاقاتیں بھی رہی ہیں۔ وہ میرے فکروفن کے قدردان بھی رہے اور میں ان کی شاعری کا شیدائی اور ساتھ ہی ان کی خداداد صلاحیتوں کا دل و جان سے معترف رہا ہوں۔ نشتر ودربھ میں جدید اردو شاعری کا ایک ایسا نام ہے جن کا اپنے لب و لہجہ کے ساتھ ، ایک منفرد آواز ، جو احتجاج اور مزاحمت سے عبارت ہے۔ انھیں مظفرحنفی نے ’نٹ کھٹ شاعر‘ قرار دیا تو ڈاکٹر شرف الدین ساحل نے جدید شاعری کے ’اینگری ینگ مین‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اِن سے دیرینہ مراسم کے سبب دانش سے بھی رشتہ اور گہرا ہوگیا ہے۔ جب آگ دونوں طرف برابر لگی ہوتو محبتوں کا جلنے میں لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ یہاں یہ لطف اور دوبالا ہوگیا ہے۔
میرا مقالہ اندرون ایک ماہ حسب و عدہ مکمل ہوگیا۔ یہاں یہ بات واضح کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ آج کل سمینار میں مضمون پڑھے جاتے ہیں لیکن مقالہ کہنے کی بدعت عام ہوگئی ہے۔ زبان کے معاملے میں جس طرح غلط العوام ہی رائج ہے اسی طرح مضمون کو مقالہ کہنے کی روایت عام ہوگئی ہے۔ لہٰذا میں بھی اس بدعت کی رعایت سے مقالہ ہی لکھ رہا ہوں۔ خیر میں اپنے اصل موضوع پر آتا ہوں یعنی دانش غنی ، ان کو مقالہ بہت پسند آیا اور وہ وقت پر اس کے موصول ہونے پر بہت خوش ہوئے اور جب بہت زیادہ پسندیدگی کا اظہار کیا تو مجھے شک ہوا کہیں دانش جو اسم بامسمیٰ ہیں ، میرا مذاق تو نہیں بنارہے ہیں یا جیسے چنے کے درخت پر میری تعریف کے پل باندھ کر اپنی دانشمندی کا ثبوت دے رہے ہو۔ لیکن بعد میں علم ہوا کہ دونوں ہی معاملے نہیں ہیں۔
واقعی مضمون پسند آیا ہے اور شاید اسی پسندیدگی کے نتیجے میں انھوں نے سمینار میں مجھے سرآنکھوں پر بٹھایا اوراچھا مقالہ لکھنے کا انعام یا پھر جسے پاداش کہیے مجھ سے مقالہ نہ پڑھواکر ایک سیشن کی صدارت یا یوں کہیے تین گھنٹے کی مشقت دے دی تاکہ میں ہمیشہ بولنے والا شخص بس خاموش رہوں بلکہ ہمہ تن گوش رہوں (اور تقریباً ایک درجن مقالے کی سماعت معمولی بات نہیں ہے ) لیکن اس تکلیف میں ایک سہولت ضرور ہوتی ہے کہ صدارتی کلمات کی شکل میں آپ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔ اس سہولت میں دانش غنی نے مزید وقت کی رعایت دے کر میری مشکل آسان کردی تاکہ میں اپنے دل کی خوب بھڑاس نکال سکوں۔
میرا مطلب ہے حسب سابق لمبی تقریر کا موقع میں نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ سمینار بہت اچھا رہا اور صبح سے شام تک سارے انتظامات بھی معقول رہے۔ کسی کو شکایت کا موقع ملا اور نہ ہی کسی تکلیف کا ذکر کرنے کی کوئی ہمت کرسکا۔ کرتا بھی تو کیسے؟ ایک تو انتظامات بھی اچھے تھے اور دوسرے دانش غنی کی دبی ہوئی شخصیت کا بھی کچھ اثر چھایا ہوا تھا۔
دوسرے دن رتناگری جیسے صحت بخش مقام اور خوبصورت پہاڑی علاقے سے گھرے شہر کو دیکھنے کا پروگرام کے بارے میں ابھی پر تول رہا تھا اور ایم مبین کے ساتھ گوا کی تفریح بھی زیرغور تھی کہ بڑے بھائی کی طبیعت کی ناسازی کا فون آگیا اور مجھے راتوں رات وہاں سے واپس اپنے مستقر اورنگ آباد روانہ ہونا پڑا۔ لیکن یہ ایک دن دانش غنی کے ساتھ کچھ اس طرح گزرا کہ اس کا ایک دلنشین تاثر ذہن پر جیسے نقش ہوگیا، جس کے نتیجے میں یہ تاثراتی خاکہ نما تحریر معرضِ وجود میں آئی ہے۔ اس یادگار سفر اور سمینار میں شرکت کے بعد سے دانش غنی سے میرا مستقل رابطہ بن گیا اور معمول کے مطابق فون پر بات چیت نے ا ن کی شخصیت کے مزید اسرار و رموز کے پردے مجھ پر وا کردیئے۔
معمولی صحت اور معمولی سے ناک نقشے والا سانولے رنگ کا دانش‘ جاذب نظر مگر شخصیت کا مالک ‘میرے حواس پر اس لیے بھی چھا گیا کہ مسلسل اس کی ادبی سرگرمیاں مجھے متوجہ کرتی رہی۔ کسی رسالہ میں مضمون چھپا ہے تو کسی پرچہ میں گوشہ آرہا ہے تو ابھی اسباق کا ایوارڈ ملنے کی تقریب میں شرکت کی ہے ، ابھی تازہ کتاب ’شعر کے پردے میں‘ پر سیدیحییٰ نشیط کا تبصرہ آیا ہے تو اگلے سمینار کے لیے قومی کونسل سے رابطہ بنا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی کالج کی سرگرمیاں بھی بدستور جاری ہیں۔ کبھی کالج میں طلباکے ساتھ این ایس ایس کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں تو کبھی اپنے شعبۂ اردو میں طلبا کو ادب کی سرگرمیوں کی طرف متوجہ کرنے میں لگے ہیں۔
ان ساری سرگرمیوں نے کالج کے اقلیتی شعبے میں جاری اردو کا اکلوتا اسسٹنٹ پروفیسر جو صدر شعبہ اردو بھی ہے کالج میں سب کا ہردلعزیز بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شعبۂ کے سمیناروں میں دوسری زبانوں کے پروفیسرس نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ بڑے سرگرم رہتے ہیں۔ اصل میں دانش اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کالج کے عملے کے ساتھ پرنسپل کو بھی مٹھی میں رکھنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ دراصل دانش غنی چلتے پرزے ہیں لیکن ہنر کے پتلے ہیںاور اخلاص و محبت کے پیکر ہیں جس سے جہاں ان کی شخصیت میں چار چاند لگ گئے ہیں تو وہیں ان کے وارے نیارے بھی ہوگئے ہیں۔ لیکن اس بات کا ہرگز کوئی اور مطلب نہ نکالیں اور کہیں اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ وہ کسی علت میں مبتلا ہیں بلکہ انھوں نے بڑے تواتر کے ساتھ اپنی کاوشوں و سرگرمیوں اور مناسب کارکردگی سے نام کمایا ہے اور اپنا مقام بنایا ہے۔ کامیاب سمیناروں سے قومی کونسل میں بھی اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔ اپنی صلاحیتوں سے اچھا خاصہ اثر و رسوخ قائم کرلیا ہے اور ان کا حلقہ بھی وسیع ہوگیا ہے۔ اِس میں پروفیسرس کے علاوہ شعرا اور ادباء کی بھی بڑی تعداد شامل ہیں اورسب کی خبر بھی رکھتے ہیں۔ ہر کسی کو بہت جلد اپنا بنانے کا ہنر بھی دانش کو خوب آتا ہے اور اسی ہنر میں ان کی مقبولیت کا راز پوشیدہ ہے۔
کتابوں پر تبصرے اور رسم اجرا کی تقریب کے انعقاد سے لہو گرم کا بہانہ بھی وہ ڈھونڈ نکال لیتے ہیں۔ البتہ سمیناروں کے سلسلے میں دانش کی ایک خاص بات ضرور قابل ذکر لگتی ہے کہ وہ سمینار میں مندوبین کو اکثر دوبارہ نہیں بلاتے، چاہے ان کی کارکردگی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، اس کے پیچھے ان کی حکمت عملی کیا ہے وہ جانیں، لیکن مجھے اس میں ان کا جذبۂ خیرسگالی ہی نظر آتا ہے کہ اس طرح زیادہ سے زیادہ ادباء و شعراء اور پروفیسر حضرات کو وہ اپنے کالج میں مدعو کرسکیں اور اسی بہانے رتناگری جیسے صحت مند مقام کی تفریح کا شرکاء بھی لطف اٹھا سکیں۔
دراصل دانش غنی ، دل کے غنی اور ذہن سے بھی دانش ہیں۔ چونکہ وہ اسم بامسمیٰ بنے ہوئے ہیں۔ سیماب ، صفت اور مزاج سے قدرے لااُبالی ضرور ہیں مگر طبیعت میں ضد ہے لیکن یہ ضد مثبت انداز میں ہونے کے سبب ، وہ جو سوچ کر ایک بار ٹھان لیتے ہیں پورا کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ کسی بھی ناانصافی کے خلاف اپنا احتجاج درج کروانا نہیں بھولتے ، یہ سب چیزیں انھیں ادب کے ساتھ ساتھ ورثے میں حاصل ہوئی ہیں۔ اپنے والد کی پیروی میں وہ پروفیسر، ادیب و شاعر اور محقق و ناقد بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اپنی عملی زندگی کا سفر انھوں نے ایک لائبریرین کی حیثیت سے شروع کیا تھا۔ درس و تدریس کے وابستہ پروفیسر حضرات میں اکثر محقق و ناقد تو بہت ہوتے ہیں لیکن ایک اچھے اور سچے ناقد و محقق کی خوبیاں ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں کہ دانش کے پاس محقق کی فکر ہے اور ناقد کی نظر بھی ہے۔ اس کا ثبوت ان کی نصف درجن کتابیں ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔
میرے لیے یہ امر ہمیشہ باعث مسرت رہا ہے کہ ادب میں جن شاعروں اور ادیبوں کے لائق سپوت ادبی دنیا میں اپنا نام اور مقام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کے واہ کیا کہنے ہیں۔ مدحت الاختر کے فرزند عبیدحارث شاعری میں اپنا نام کما رہے ہیں تو حمیدسہروردی کے فرزندارجمند غضنفراقبال نثر کی اصناف میں اپنا کمال ہنر دکھا رہے ہیں۔ ساہتیہ اکیڈیمی کے یواپرسکار یافتہ کئی کتابوں کے مصنف اور مرتب بھی ہیں اور اپنی کتابوں کی تعداد میں اضافہ سے اہلِ ادب کو متوجہ کیا ہے۔ علاقہ مرہٹواڑہ کے کہنہ مشق استاد شاعر مرحوم جے پی سعید کے فرزندِخورد نویداحمدصدیقی اپنی ادبی سرگرمیوں کے ساتھ اپنے نام کو نمایاں کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں اور ادھر دانش اپنی ادبی وراثت کو اخبار کی جلی سرگرمیوں کی طرح ادب کے میدان میں اپنی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر دل واقعی گارڈن گارڈن ہوجاتا ہے۔
اگر باغ باغ کہوں تو وہ لطف نہیں آئے گا جو اس کے انگریزی ترجمہ میں ہے۔ میرے تئیں دانش کی گرم جوشی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ رشتوں کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں اور اس بات کا عملی ثبوت بھی دیتے ہیں۔ دراصل نشتر نے دانش کی اخلاقی ، علمی و ادبی تربیت ’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘ کے مصداق بچپن سے صحیح طور پر ہوئی ہے اور رفتہ رفتہ اُن کی شاعری کے اثرات دانش کے حواس پر چھاتے گئے اور اب یوں لگتا ہے جیسے اپنے والد کے شعری سرمایے کو انھوں نے گھول کر پی لیا ہے۔ جس نے شاعر کی سوجھ بوجھ کے ساتھ شاعری کی تنقیدی صلاحیت بھی اُن کے اندر پیدا کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے والد کی شاعری پر مضامین بھی لکھے اور خوب لکھے اور لگے ہاتھوں ان کی نظموں کی ایک پوری کتاب ترتیب دے دی۔ نشتر کی نظموں کا انتخاب ’’پرندے تو مسافر ہیں‘‘ کے عنوان سے پیش کر کے ممتاز جدید شاعر گر مستحق فنکار کے ساتھ ہوئی ناانصافی کا ایک طرح سے تدارک کیا ہے اور عبدالرحیم نشتر کے لائق سپوت ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ اسی بات کو نذیرفتح پوری نے اپنے انداز میں یوں لکھا ہے کہ’’دانش نے واقعی اپنی دانشمندی کا ثبوت دیا کہ اپنے والد کے بکھرے اثاثے کو اشاعتی دھاگے میں پرو کر کتاب کی صورت میں محفوظ کردیا۔ اب یہ نظمیں جہاں جہاں پڑھی جائیں گی اپنے ماضی کے احتجاجی رویوں کا اعادہ کریں گی‘‘۔ (پرندے تو مسافر ہیں)
یوں دانش نے شاعری کی تحقیق و تنقید کو اپنی ادبی کاوشوں کا موضوع بنایا ہے اور خوب بنایا ہے۔ قدیم و جدید اگلے اور پچھلے تقریباً تمام شاعروں کی شاعری پر تبصرہ کر کے داد وصول کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ شاعروں کی بہتات کی وجہ سے دانش کو شعرگوئی سے زیادہ شعرفہمی میں عافیت نظر آئی۔ شاید انھیں اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ آج کل اپنا کلام سناکر بھی اتنی داد اور قدردانی نہیں مل سکتی ہے جس طرح اب وہ شاعری کی نقدونظر سے حاصل کررہے ہیں۔ یعنی ان کو اس بات کا علم ہوگیا تھا کہ اپنی شاعری سے زیادہ دوسروں کی شاعری پر اظہارِخیال کر کے داد وصول کی جاسکتی ہے۔
شاید اسی لیے دانش نے شاعری کی تحقیق و تنقید کو اپنی تحریروں کا ذریعہ بنایا ہے اور اپنی صلاحیتوں کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ سیدمعراج جامی نے اپنے اس بیان سے میری بات کی تصدیق کردی ہے کہ’’دانش غنی کو شعر روایت سے دلچسپی ہے اگرچہ وہ خود شاعر نہیں ہے مگر شعرگوئی سے کہیں زیادہ دانش کو شعری فہمی کا ملکہ حاصل ہے۔ میرے نزدیک شاعر ہونے سے کہیں زیادہ افضل اور معتبر مشغلہ شعرفہمی ہے تاکہ کوئی تو ہو جو شاعر کے کلام کی صحیح تفہیم کرسکے‘‘۔ ( شعر کے پردے میں )
دانش نے اپنے گہرے ادبی ذوق و شوق اور وسیع مطالعہ کا ثبوت دیتے ہوئے قدیم اور جدید کے ساتھ موجودہ شعراء کے کلام کا مطالعہ منطقی استدلال سے نہیں مدلل دلائل سے اپنی بات بالکل شعر کے اوزان کی طرح کی ہے۔ ساتھ ہی مثبت اندازِتنقید کو اپنایا ہے۔ شیریں دلوی کے لفظوں میں: ’’ان تنقیدی‘ تخلیقی اور تاثراتی مضامین میں دانش کی دانش مندی صاف جھلکتی ہے۔‘‘ اور میری نظر میں ان کی یہی دانش مندی ان کی پہچان بن گئی ہے اور دانش کی لفظی رعایت سے شاید ان کے اندر دانش مندی آگئی ہے۔ اسے اب دانش غنی کی کمال ہوشیاری کہیے یا واقعی دانش مندی یا اپنے علاقے اور اپنی مٹی سے محبت کی علامت کہ انھوں نے بقول ڈاکٹرابن کنول :’’اپنے صوبے کے معروف شعراء کی شعری خدمات کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ دیانتداری کے ساتھ ان پر تنقید بھی کی ہے۔‘‘ میں تو یہی کہوں گا کہ دانش نے اپنے علاقے کے شاعروں کی خدمات کا حق ادا کیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ شرف الدین ساحل کے لفظوں میں’’دوسری ریاستوں کے نقادوں کو اپنے علاقے کے فنکاروں کی تشہیر کرنے سے فرصت کہاں کہ اس طرف نظر اٹھا کر دیکھیں۔ محمددانش غنی نے یہ اچھا ہی کیا کہ اپنی ریاست کے فنکاروں کا خیال رکھا اور ان کو متعارف کرانے کی احسن کوشش کی ہے‘‘۔ ( شعر کے پردے میں )
میری نظر میں ان کی یہ کوشش حق بہ حقدار رسید کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اسی طرح دانش نے اپنے علاقے کے شاعروں کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ ہی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علاقہ کوکن کی ادبی روایات اور خدمات کو اپنی تحریروں میں خصوصی جگہ دی ہے۔ اس موضوع پر سمینار بھی کیا اور کتاب بھی شائع کی اور تحریروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ غرض قدیم و جدید ہم عصر شاعروں کی شاعری پر اپنی تنقیدی بصیرتوں سے تحریروں کی ایک کہکشاں بکھیر دی ہے۔ اسی لیے حقانی القاسمی جیسے جید نقاد نے ان کی تنقیدی صلاحیتوں کا مجموعی تجزیہ اپنے ان گرانقدر الفاظ میں یوں کیا ہے کہ
’’محمددانش غنی ایک باشعور ناقد اور زیرک قاری ہیں۔ معاصر ادبی اور اس کے رجحانات پر ان کی اچھی نظر ہے۔ ان کی ادب فہمی پر شاید ہی کسی کو شک ہو۔ شاعری کے تنوع تضاد، تکرار اور توارد پر ان کی نظر ہے۔ صنائع و بدائع ، محاسن و معائب سخن سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ کلاسیکی شعری روایت اور معاصر شعری رویے سے بھی واقف ہیں اور لسانی لطافتوں اور نزاکتوں سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کے اندر تجزیاتی قوت بھی ہے۔ اس لیے شعرفہمی کے مشکل معرکے کو انھوں نے بخوبی سراہا ہے‘‘۔(شعر کے پردے میں)
دانش کی شعر فہمی کی آگاہی سے قوی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں سمیناروں پر سمیناروں کا انعقاد کرتے رہیں گے اور کتابوں کے انبار پرانبار لگادیں گے۔ میں ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں سے متاثر ہوکر بے ساختہ ایک بار پھر یہ کہنے پر خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ احتجاجی لہجے کے شاعر کے ہونہار سپوت مہاراشٹر کے جواں سال ناقد و محقق ہیں۔ اس خصوص میں سید یحییٰ نشیط کی رائے بھی ہم لگتی ہے کہ
’’دانش میدانِ نقد و تحقیق میں نووارد ہیں۔ عجلت پسندی سے اجتناب برتیں اور اپنی تخلیقات پر سخت تنقیدی نظر ڈالتے رہیں تو وہ مستقبل قریب کے اچھے ناقد اورمحقق بن کر ابھر سکتے ہیں‘‘۔ (ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی ، اکتوبر ۲۰۲۰ء)
علاقہ ودربھ کے معتبر ناقد و محقق ڈاکٹر سیدیحییٰ نشیط کی اِن نیک توقعات کے ساتھ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کی آمد پر‘ میں تازہ کار ناقد و محقق کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے دانش غنی کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ اِس دعا کے ساتھ کہ؎
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے