Categories: فکر و نظر

عہد حاضر کے ممتاز فکشن نگار ڈاکٹر رضوان الحق اپنے ہم عصروں میں کچھ الگ پہچان رکھتے ہیں

<p style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;"> ورود تازہ ۔۔۔۔ </span></p>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">۱_ بازار میں طالب (افسانے) </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">۲_ خود کشی نامہ (ناول)</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">مصنف: رضوان الحق </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">پبلشر: عرشیہ پبلیکیشنز، دہلی ( Arshia Kitaab Nagar India )</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">تقریباً پانچ ماہ قبل فیس بک پر رضوان الحق صاحب کے افسانوی مجموعہ "بازار میں طالب" کا ذکر کثرت سے دیکھنے کو ملا تو ناچیز کو بھی ان کے افسانے پڑھنے کا اشتیاق ہوا، یہ علم نہیں تھا کہ کس پبلشر نے شائع کیا ہے اس لیے براہ راست رضوان الحق صاحب کو میسج کیا کہ "بازار میں طالب" کا طالب ہوں، براہ مہربانی کوئی سبیل نکالیں" میری خوش بختی کہ موصوف نے میری گزارش کو مان دیتے ہوئے حکم فرمایا کہ " آپ اپنا ایڈریس بھیج دیجیے میں مجموعہ آپ کو بھجوا دوں گا" ۔۔۔ اندھے کو کیا چاہیے؟ ۔۔۔ دو آنکھیں۔۔۔ ویسے بھی جو کتاب مجھے پسند ہوتی ہے یا جس کا اشتیاق ہوتا ہے، میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ بس وہ مجھے کسی بھی قیمت پر پڑھنے کو مل جائے اور اگر صاحب کتاب خود مہربان ہو جائے تو اس کو میں اپنی خوش بختی گردانتا ہوں ۔۔۔ اس لیے نہیں کہ پیسے بچ گئے بلکہ اس لیے کہ مصنف کی جانب سے کتاب ملنے کی جو خوشی ہوتی ہے وہ اپنا الگ مزہ دیتی ہے۔۔۔۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">بہر حال۔۔۔  تقریباً دو ماہ تک  انتظار کرتا رہا کہ کتاب اب آئی کہ تب آئی۔۔۔۔ مگر مصروفیت کی وجہ سے شاید رضوان صاحب کے ذہن سے محو ہو گیا، میں نے بھی دوبارہ تقاضہ نہیں کیا۔۔۔ ایک دن اچانک ان کا میسج آیا کہ " آپ کو افسانوی مجموعہ بھیجنے میں تاخیر ہو گئی، اب جلد ہی میرا ناول شائع ہونے والا ہے، دونوں کو ایک ساتھ بھیجتا ہوں" ۔۔۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">ان کے ناول "خود کشی نامہ" کے دو ابواب اثبات ۲۸ (مدیر: اشعر نجمی) میں دیکھ چکا تھا؛ اور اس ناول کی اشاعت کا شدت سے منتظر تھا ۔۔۔ ان کی اس خبر سے مجھے دوہری خوشی ہوئی۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">بہر کیف دو ہفتے قبل کچھ کتابوں کی خریداری کی غرض سے عرشیہ پبلیکیشنز، دہلی جانا ہوا تو Rizvan UL Haq صاحب کے یہ دونوں خوبصورت علمی تحفے میرے منتطر تھے، جی خوش ہو گیا ۔۔۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">رضوان الحق صاحب کا شمار فکشن لکھنے والے ان قلم کاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے جدیدیت کے علمبردار رسالہ "شب خون" سے اپنے لکھنے کی ابتدا کی۔۔۔ البتہ ذاتی طور پر رضوان الحق صاحب کا فکشن کلی طور پر ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں کی انتہاؤں کو مکینکی سطح پر نہیں اپناتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے یہاں شعوری یا لاشعوری طرز پر فکشن کو محض فکشن ہی رہنے دینے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">"بازار میں طالب" ان کے سات افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں "طالب" کا کردار ہر افسانے میں اس طرح سرایت کر گیا ہے کہ ہر افسانے میں یہ کردار مختلف شیڈس میں ہونے کے با وجود احساس کی کسی موہوم ڈور سے یکجا بندھا نظر آتا ہے ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">اس مجموعے کے پہلے چار افسانے 'کچھ سامان' 'چونی' 'کوئی ہے' اور 'تعاقب'  "شب خون" میں شائع ہوئے تھے۔۔۔۔ ان کے پہلے افسانے 'کچھ سامان' کے تعلق سے مرحوم شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں کہ " شب خون کے لیے رضوان الحق کا ایک افسانہ مجھے ملا، 'کچھ سامان' ۔۔۔ میں نے بے دلی سے پڑھنا شروع کیا اور ہر پیرا گراف کے ساتھ میری بے دلی حیرت اور مسرت میں بدلتی گئی۔۔۔۔ خدا کا شکر ہے کہ آج ایک ایسا افسانہ نگار موجود ہے جسے ہر مسئلے کا حل نہیں معلوم، جو ہمارے ہر مرض کی دوا نہیں جانتا، جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے، مجبور ہی نہیں کرتا، ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ سوچو! تم کہاں ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟ یہ افسانے ایسے ہیں کہ'افسانے میں کہانی کی واپسی' جیسے فقروں کا بے معنی پن اور بھی واضح کر دیتے ہیں۔" (خبر نامہ شب خون، اپریل تا جون ۲۰۱۵)</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">فاروقی صاحب کی اس رائے سے قطع نظر بھی اگر دیکھا جائے تو رضوان الحق صاحب کے یہاں افسانے کا فن اپنے الگ معنی رکھتا ہے۔۔۔۔ مجموعے میں شامل ان کا آٹھ صفحات پر مشتمل "عرض مصنف" افسانے کی ہیئت اور اس کے فن کے حوالے سے بہت وقیع مکالمہ قائم کرتا ہے ۔۔۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">مجموعی طور پر یہ افسانے ادب کے ہر سنجیدہ قاری کو پسند آئیں گے یہ میرا ذاتی خیال ہے۔۔۔!</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">"خود کشی نامہ" رضوان صاحب کا پہلا ناول ہے اور اس کو بھی "بازار میں طالب" کی طرح عرشیہ پبلیکیشنز، دہلی نے بہت خوبصورت طباعت کے ساتھ عمدہ اور نفیس کاغذ پر بہت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔۔۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">ناول ابھی پڑھا نہیں گیا ہے مگر جس طرح مصنف نے "پیش گفتار" اور "قصے کا پس منظر" وغیرہ عنوان کے تحت کہانی سے پہلے کی کہانی کا آغاز کیا ہے ، اس سے ناول کے ٹریٹمنٹ کے تئیں مصنف کے ذہن کی تازہ کاری قاری پر ایک خوشگوار اثر مرتب کرتی ہے ۔۔۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">افسانے کی طرح ناول کے حوالے سے بھی رضوان الحق صاحب کے یہاں اپنا ایک نظریہ ہے جس کے تعلق سے انہوں نے "عرض مصنف" کے تحت ایک طویل گفگو کی ہے جو میرے خیال سے ادب کے ہر طالب علم کے لیے نہایت مفید اور کارآمد ہے۔۔۔!</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">مجموعی طور پر رضوان الحق صاحب کی یہ دونوں کتابیں سنجیدہ فکشن میں ایک قابل قدر اور اہم اضافہ ہیں ۔۔۔ امید ہے کہ ان کا ناول اور افسانوی مجموعہ کتاب شائقین کے ادبی ذوق کی مکمل تسکین کرے گا۔۔۔!! </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">رضوان الحق صاحب کے خلوص اور محبتوں کا حد درجہ شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ناچیز کو ان عمدہ ادبی تحفوں سے نوازا ۔۔۔۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">رب کریم ان کی قلمی جولانیوں کو بر قرار رکھے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">___________ وسیم احمد فدا</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">سکندر گیٹ، ہاپوڑ۔ (یوپی)</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size:16px;">موبائل نمبر :9027374558</span></div>

Dr. S.U. Khan

Dr. Shafi Ayub editor urdu

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago