ڈاکٹر جہاں گیر حسن
اِرتداد سے متعلق کچھ دنوں پہلے ہم نے ایک تحریر پیش کی تھی جس میں واضح کیا گیا تھا کہ ہماری نئی نسلوں میں اِرتداد کی وبا پھیلنے کے اہم اسباب میں تربیت اولاد کے سلسلے میں والدین کا غفلت برتنا ہےاورنئی نسلوں کو دِین و اصول دین اور تہذیب و ثقافت سے روشناس نہ کراناہے وغیرہ۔ساتھ ہی والدین کااِس خوش فہمی میں مبتلا رہنابھی ہے کہ اُن کی اولادہرگز نہیں بہک سکتیں اور یہ کہ اُن کی اولاد اَبھی نادان ہیں۔ جب کہ اس بیچ اُن کی اولاد نہ جانے کیا کیا نادانیاں کرگزرتی ہیں اور والدین کو ہوش تب آتا ہے جب اُن کی اولاد اُنھیں کہیں کا نہیںرہنے دیتیں۔ والدین کی یہ سب وہ بنیادی غفلتیں اور کوتاہیاںہیں جو نئی نسلوں کے ارتداد میں آج کل اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ لیکن اپنے اِس مضمون میں ہم ایک اور اَہم سبب ِارتداد کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں ۔ کیوں کہ ہم اور ہماری سوسائٹی اُس کی طرف سے یکدم سے غافل ہیں بلکہ اُس سبب کو ہم اور ہمارے افراد ہی جانے انجانے طور پر بڑھاوا دیتے ہیں اور یوںغیرشعوری طورپربذات خود ہم اپنے بچے-بچیوں کو اِرتداد کے ہلاکت خیز گڑھے میں ڈھکیلتے جارہے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ اہم سبب ہے ایک مذہب کے لڑکے-لڑکیوں کا دوسرے مذہب کے لڑکے-لڑکیوں کے ساتھ شادی-بیاہ رچانا، اُسے مذہبی و معاشرتی معیوب نہ سمجھنا اور آزادی کے نام پر چوطرفہ اِس طرح کی شادیوں کی حمایت کرنا۔
آج کل صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک مذہب کے لڑکے-لڑکیوں کا دوسرے مذہب کے لڑکے-لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنا عام سی بات ہوگئی ہے۔ آئے دن اِس طرح کی خبریں اخبارات سے لے کر سوشل میڈیا پر نشر ہوتی رہتی ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بالخصوص تعلیم یافتہ افراد مذہبی و معاشرتی لحاظ سے اِس خطرناک اور ہولناک عمل کو بھی ترقی اور تعلیمی بیداری کا نتیجہ قرار دے دیتے ہیں جب کہ دراصل اِس طرح کی شادیاں بھی ہمیں اور ہماری نسلوں کو اِرتداد کی راہ دکھاتی ہیں۔ بغور دیکھاجائے تو اِس طرح کی شادیاں کسی بھی لحاظ سے ہمارے حق میں مفید ثابت نہیں ہوتیں۔ نہ مذہبی اعتبار سے اور نہ معاشرتی اور ملکی اعتبار سے۔بلکہ اِس طرح کی شادیوں کے سبب بہرصورت ہمارے ملک وملت اورسماج ومعاشرے کا ماحول خطرناک حد تک تشددآمیز اور مکدر ہوجاتاہے ۔ نیز یہ کہ دوگھرانوں کی خوشنمافضابھی گھٹن اور تعفن کی شکار ہوجاتی ہے۔ یہ بات اور ہےکہ اِس طرح کے جوڑے یا اُن کے احباب و اقارب اُس گھٹن اور تعفن کو چھپانے کی بہرصورت کوشش کرتےہیں لیکن وہ ناکام رہتے ہیںاور نتیجے کے طورپر بھیانک انجام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مزید یہ کہ اِس طرح کی شادیاں جہاں ایک طرف ایک مذہبی طبقے کو دُوسرے مذہبی طبقےکے خلاف اُکسانے اور ورغلانےکی محرک بنتی ہیں اور آپس میں فتنہ وفسادکو ہوا دیتی ہیں تو وہیں دوسری طرف نام نہادآزادی اور ترقی کے نام پر تمام طرح کی مذہبی و معاشرتی اُصولوں کی دھجیاں بھی اُڑاتی نظر آتی ہیں اورپھر ہماری نئی نسلیں مذہب بیزارہونے کے ساتھ ساتھ اِرتداد کا لقمۂ تر بن جاتی ہیں۔مزیدبرآں منصفانہ نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ایسی شادیاں یا تو دِیرپا ثابت نہیں ہوتیں یا تو پھر اِس طرح کی شادیاں ہمارے ملک ومعاشرے میں منافرت کے درخت اُگانے کے ساتھ اُس کو تناور بنانے میں بھی بنیادی کردار اَدا کرتی ہیں اور اِس کااثریہ ہوتا ہے کہ ہم اور ہمارے ملکی و معاشرتی برادران بادل نخواستہ ایک ایسی راہ پر چل پڑتے ہیں جو کسی بھی صورت نہ ملک و ملت کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور نہ سماج ومعاشرے کے حق میں۔ بلکہ اس کے برخلاف جس ملک ومعاشرے کو اَمن وآشتی کا گہوارہ ہونا چاہیے وہ افراتفری اور تشدد و تنفر کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
عالمی سطح پر بالعموم اور ملکی سطح پر بالخصوص پچھلے پچیس-تیس برسوں کے حالات کا جائزہ لیں توواضح ہوتا ہے کہ ایک مذہب کے افراد کا دوسرے مذہب کے افراد کے سا تھ شادیاں کرنے کا رواج جس قدر تیزی سے پروان چڑھا ہے اُسی قدر تیزی سے ملکی و معاشرتی سطح پر ایک مذہبی طبقے کا دوسرے مذہبی طبقے کے تئیں محبت و اُخوت کے گراف میں حددرجہ کمی آئی ہےجب کہ اِس کے برخلاف تشدد و تعصب اورآپسی بھڑنت کا گراف ناقابل یقین حد تک بڑھ گیا ہے۔ یہاں اِس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس میں ہماری سیاست نے بھی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے لیکن اِس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس طرح کے مواقع ہمارے تعلیم یافتہ افراد ہی نے فراہم کیے ہیں اور جن شادیوں کے خلاف ہمیں آواز اُٹھانے چاہیےتھے اُن شادیوں پر ہمارے قائدین وپیشوایان نےمسرت و شادمانی کی ڈُگڈگی بجانے میں یقین رکھاہے اورپھر اِسی کو ہمارے مفکرین وپیشوایان نے دین کی تبلیغ اور اِشاعت سمجھ لیا ہےجب کہ حقیقت میں یہ دین کی تبلیغ سے زیادہ دین کی تضحیک بننے کے ساتھ ہماری نئی نسلوں کے حق میں ارتداد کی ایک بڑی وجہ بن گئی ہے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غیرمذاہب میں ہماری نئی نسلوں کا رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا ہمارے گلے کے لیے اُس ہڈی کی مانند بنتی جارہی ہے کہ جسے نہ اُگلا جائے ہے اور نہ نگلا جائے ہے۔چناںچہ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود کہ اِس طرح کی شادیاں ہمارے اوپر واجب نہیں لیکن اپنی بہوؤں اوربٹیوں کو معاشرتی تحفظ فراہم کرنا اور دینی فرائض کی بجاآوری بہرصورت ہمارے اُوپر واجب ہے، تو یہ کہاںکی عقل مندی ہے کہ ایک غیر ضروری عمل کے لیے ہم اپنے واجبات سے لاپرواہی برتیں اور اَپنے ذاتی مفاد اور ذاتی تسکین کے لیے اپنی بہوؤں اوربٹیوں کے مذہبی ومعاشرتی تحفظ کو دَاؤ پر لگادیں اور دینی احکام کو بالائے طاق رکھ دیں۔لہٰذا اِس طرح کی شادیوں پر ہم مسلمانوں کو بذات خود قدغن لگانا ہوگا اور اَیسی شادیوں کے خلاف پورے ہوش وحواس کے ساتھ کھڑا ہوگا۔بلکہ اِس کی روک تھام کے لیے حکومت کو بھی اِس طرف توجہ دلانی ہوگی کہ وہ اِس معاملے میں کوئی کارگر قدم اٹھائے۔ تاکہ ایک طرف ہماری بہوؤں اور بیٹیوںکو مذہبی و معاشرتی تحفظ فراہم ہوسکے تو دوسری طرف ہماری نئی نسلیں بھی اِرتداد سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر ہم ایماندارانہ طورپر اَیسا کرلے جاتے ہیںتوملکی وملی سطح پر اِس کے متعدد فائدے ہمیں حاصل ہوسکتے ہیں،مثلاً:
۱۔ ملکی و ملی اورمعاشرتی سطح پر جس طریقے سے آپسی منافرت و تعصب پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اُن کا خاتمہ ہوگا اور ہم فطری طور پر تعمیر وترقی کی طرف بڑھیں گے۔۲۔نفرتیں دور ہوںگی توآپسی نزدیکیاں بڑھیں گی، ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں بہتری آئےگی اور اَیسے میں حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے کرانے کا سنہرا موقع میسرآئےگا۔۳۔اور سب سے اہم اور بنیادی بات یہ کہ ہماری نئی نسلیں اِرتداد کی غار میں گرنے سے محفوظ رہیںگی اور اِسی کے ساتھ مذہبی سطح پربھی وہ حرام عمل کے مجرم نہیں ٹھہریںگی۔ کیوںکہ اصول دین کے مطابق: مسلم لڑکے-لڑکی کا نکاح مشرک لڑکے-لڑکی سے سخت حرام ہے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…