میڈلین اسلیڈ 22 نومبر 1892 کو انگلینڈ میں ایک برطانوی فوجی افسر سر ایڈمنڈا سلیڈ کے یہاں پیدا ہوئیں۔ ایڈمنڈ برطانوی سامراج کے دوران بمبئی (ممبئی) میں بحریہ کے ایسٹ انڈیز اسکواڈرن کے کمانڈر ان چیف رہ چکے ہیں۔
اسلیڈ فطرت سے محبت کرتی تھی اور بچپن سے ہی سادہ زندگی کو پسند کرتی تھی۔ انہیں موسیقی میں گہری دلچسپی تھی اور وہ بیتھوون کی موسیقی بہت پسند تھی۔ میڈلین اسلیڈ بچپن میںتنہائی پسند تھیں، اسکول جاناتوہرگز پسند نہیںتھا لیکن مختلف زبانیں سیکھنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ انہوں نے فرانسیسی ، جرمن اور ہندی سمیت دیگر زبانیں سیکھیں۔
بچپن میں، انہوں نے اپنا زیادہ وقت گھر کے کھیت میں گزارا اور گھوڑے کی سواری اور شکار پر جایا کرتی تھیں۔ انگلینڈ سے وہ فرانسیسی زبان سیکھنے کے لیے پیرس پہنچی۔ وہ پیرس سے واپس آکر گاندھی پر لکھے گئے ہر لٹریچر کو پڑھتی ہیں۔ اس کے بعد وہ سادہ زندگی گزارنے لگتی ہے اور اپنے کمرے سے سارا فرنیچر نکال کر فرش پر سونے لگتی ہیں۔
میڈلین 06 نومبر 1925 کو پی اینڈ او جہاز پرسوار ہوکر 25 اکتوبر 1925 کو گاندھی سے ملنے کے لیے ہندوستان پہنچیں۔ گاندھی ولبھ بھائی پٹیل ، مہادیو دیسائی اور سوامی آنند کو ان کے استقبال کے لیے بھیجتے ہیں۔ میڈلین نے 07نومبر 1925 کو مہاتما گاندھی سے ملاقات کی۔
اپنی سوانح عمری دی اسپریٹس پلیگرامس میں وہ مہاتما گاندھی سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں لکھتی ہیں ’’جب میں گاندھی جی سے پہلی بار ملی تو مجھے ایک روشنی کے علاوہ کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ گاندھی جی نے مجھ سے کہا – تم میری بیٹی بن کر رہو گی۔
میرا بین نے اپنی پوری زندگی انسانی ترقی ، گاندھی کے اصولوں کو آگے بڑھانے اور آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی تھی۔ یہ دیکھ کر گاندھی نے ان کا نام میرا بین رکھ دیا۔
میرا نے گاندھی کے ساتھ بنیادی تعلیم ، اچھوت کی روک تھام جیسے کاموں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کھادی اور ستیہ گرہ تحریک کے گاندھی کے اصولوں کو فروغ دینے کے لیے ملک کے کئی حصوں کا سفر کیا۔ انہوں نے ینگ انڈیا اور ہریجن میگزین میں اپنے ہزاروں مضامین لکھ کر تعاون کیا۔ میرا بین نے وردھا کے قریب سیوا گرام آشرم کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
میرا بین جدوجہد آزادی میں آخری دم تک گاندھی کی ساتھی رہیں۔ وہ 1932 کی دوسری گول میز کانفرنس میں مہاتما گاندھی کے ساتھ تھیں۔ انہیں بھی گاندھی کے ساتھ 09 اگست 1942 کو گرفتار کیا گیا اور مئی 1944 تک آغا خان حراستی مرکز میں رکھا گیا۔
اتر پردیش میں زیادہ سے زیادہ اناج کی پیداوار کی مہم میں اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ، انہوں نے 1947 میں رشیکیش کے قریب آشرم پشولوک کی شروعات کی۔ بعد میں اس کا نام باپو گرام رکھا گیا۔ 28 جنوری 1959 کو ہندوستان چھوڑنے سے پہلے، وہ راشٹرپتی بھون میں ڈاکٹر راجندر پرساد کے ساتھ کچھ دن رہی اور پھر انگلینڈ کے راستے ویانا چلی گئیں۔
جنگلوں کے قریب وہ خوبصورت جگہ ، انتہائی پرسکون اور ویران ، قدرتی حسن سے بھرپور، آخری ایام تک ان کا مسکن رہا۔ 1981 میں حکومت ہند نے انہیں ’پدم وبھوشن‘ سے نوازا۔
20 جولائی 1982 کو وہ اسی’ابدی شعلے‘ میںمل گئیں ، جس کو چھوڑ کر انہوں نے باپو کے راستے اور آزادی پر چلتے ہوئے اصولوں کے لیے جدوجہد کی اور زندگی گزارنے کا فن تیار کیا۔
آسٹریا میںمیت کو جلانے کا کوئی رواج نہیں ہے لیکن میرا بین کی خواہش کے مطابق ان کے ذاتی ملازم رامیشور دت نے ان کی میت کو مکھ اگنی دی۔ پھر اس کی راکھ کو ہندوستان لایا گیا اور اسی رشیکیش اور اسی ہمالیہ کی طرف اڑایا گیا جس میں انہوں نے خود کو پایا اور کھو دیا۔