ابوالبرکات شاذ قاسمی
تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن جگیراہاں بتیا
’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ اس ترکیب میں “اسلامی” کا لفظ محض فضول لگتا ہے کیونکہ پاکستان میں سب کچھ ہے مگر ’’اسلامی‘‘یہ کہنا ذرا مشکل ہوگا اسی طرح جمہوریت کا لفظ بھی مضحکہ خیز اضافہ کے سوا کچھ بھی نہی اِس وقت دنیا کے نقشے پر پاکستان صرف ایک علیحدہ ملک باقی رہ گیا ہے جہاں جمہوریت کے نام پر مذاق اور اسلام کے نام پر سیاست ہوتی رہی ہے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے وجود کے دن سے آج تک کوئی ایسا “رہبر کامل” نہ مل سکا جو جمہوریت،عدالت، امن،رواداری اور بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب و تمدن، اسلامی فکر و نظر اور دین اسلام کی بالادستی کو پاکستان کے طول و عرض میں نافذ کر سکا ہو۔ بانیانِ پاکستان کی خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرسکا ہو۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اب تک جو بھی پاکستان کا حکمران ہوا وہ اپنی کرسیٔ اقتدار کو بچانے کے لیے جمہوریت و بنیادی حقوق کو اپنے پاؤں تلے روندا۔ عدالت و انصاف کی حرمت کو پامال کیا پاکستانی عوام کے جذبات کو کچلا بانئ پاکستان قائد اعظم کی فکری انقلاب کو ملیامیٹ کیا ملک کے اقلیتوں خصوصا ہندوؤں سکھوں کے ساتھ برا سلوک کیا جب ملک پاکستان میں جمہوریت کی یہ تصویر ہو تو اسلامی نظام زندگی کا تصور کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
جمہوریت تو اسلامی طرز زندگی کی رہین ہے پاکستان میں آئے دن اسلامی اقدار عدل و انصاف اور معاشرتی اور عائلی زندگی میں شریعت کے اصولوں کا مذاق ہوتا رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہاں سرکاری عمارتوں کے در و دیواروں پر عدالت عظمی و عالیہ کے صدر دروازے پر قومی پرچم پر کلمہ طیبہ و قرآنی آیات آپ کو کندہ ملیں گے۔
افغانستان میں مسلمانوں کا خون بہانے میں امریکہ کا ساتھ دینے والا پاکستان ہی تھا ۔اللہ کی بے پناہ قدرت و طاقت کے باوجود امریکہ کے گود میں بیٹھنے والا پاکستان ہی تھا۔ چند کوڑیوں کے بدلے انصاف کو بکتے ہوئے پاکستان میں ہی دیکھا گیا مسلم نما منافق ممبران پارلیمنٹ ملکی مفاد کو ٹھکرا کر اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہوئے پاکستان میں ہی دیکھے گئے۔
“میرا جسم اور میری مرضی” کی حیا سوز اور ردائے عفت دار کو تار تار کرنے والی صدائیں عالم اسلام میں سب سے پہلے پاکستانی خواتین کی زبانی ہی سنی گئ نواز شریف اور پرویز مشرف کو اپنے زندگی کے آخری ایام؛ مدینہ کی گلیوں کے بجائے امریکہ اور یورپ کی روشن اور عریاں فضا میں گزارنا اچھا لگا جس سے شاعر مشرق علامہ اقبال مسلمانوں کو بچنے کی تلقین کرتے رہے یہ باتیں اس لئے بھی اہم ہوجاتی ہیں کیوں کہ کچھ لوگ تحریک پاکستان کو ان کی فکری کاوشوں کا نتیجہ مانتے ہیں بلاشبہ یہ سب کے سب اس بات کا اشاریہ ہے کہ پاکستان میں “اسلامیت” و “جمہوریت” کے نام پر کچھ بھی باقی نہیں پاکستان صرف پاکستان ہے اسلامی جمہوریہ سے اس کا کچھ واسطہ نہی ۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عمران خان کی حکومت نے دنیا کو اسلام کی عالم گیر اخوت ،اسلام کی وسیع رواداری، امن و سکون ، بقائے باہم اور پاکستان کے وجہِ وجود کا درست ترجمانی کرنے کی ناتمام کوشش کیا۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کے دوران جب بھارتی فضائیہ کا ایک اہم رکن ابھی نندن پاکستان میں گرے تو عمران خان کی حکومت نے نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا بلکہ اسے بحفاظت ہندوستان کو لوٹا کر دنیا کو یہ اہم پیغام دینے میں کامیاب ہوئی کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور جنگ نہیں چاہتا حالانکہ ہندوستان اور پاکستان کی دشمنی پرانی رہی ہے یہ دونوں ممالک ماضی میں کئی بار ایک دوسرے سے بر سر پیکار رہ چکے ہیں جس میں دونوں ملکوں کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے عمران خان کی اس حکمت عملی نے جس میں انہوں نے بھارتی کیپٹن ابھی نندن کو باعزت بھارت کے حوالے کیا تھا پاکستان کی ہر طرف پذیرائی ہوئی تھی اور اس کی مقبولیت میں خاصا اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔
عمران خان پاکستان کے لیے اس لیے بھی اہم تھے کہ ان کے زمام حکومت کو سنبھالتے ہی لوٹ مار قتل ناحق اور جرائم کے گراف میں گراوٹ آنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی کمی دیکھنے کو ملی تھی حالانکہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کو پناہ دینے میں اس سے قبل پاکستان پوری دنیا میں ہمیشہ بد نام رہا ہے ۔
وہی قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ حزب اختلاف کا الزام تھا کہ عمران خان کی حکومت آتے ہی ہر شئے میں مہنگائی آئی ہے پٹرول ڈیزل سے لے کر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا ہے نئی مخلوط حکومت کی تمام پارٹیوں نے عمران خان کی اس کمزوری کو عوام کےسامنے پر زور انداز رکھنا شروع کیا واقعہ بھی یہی ہے کہ ان کی حکومت مہنگائی کو لگام نہ دے سکی۔
اگر ہم وفاقی ادارہ شماریات پاکستان کی تسلیم کریں توپاکستان میں مہنگائی کی شرح میں سال 2021 میں 12.3 کا اضافہ ہوا اور نومبر 2019 میں مہنگائی کی شرح 11.55 فیصد رہی جبکہ دسمبر دوہزار بیس میں افراط زر کی شرح آٹھ فیصد رہی تھی اور سال 2020 کے شروع چھ ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد رہی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت میں مہنگائی بتدریج بڑھتی ہی رہی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی نئی مخلوط حکومت نے عمران کے خلاف محاذ کھڑا کردیا اسی لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کے بعد نئی حکومت کو مخلوط حکومت کے چلانے کے ساتھ مہنگائی کو روکنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
پاکستانی معیشت کے ماہرین نئی حکومت کے آنے کے بعد بھی مہنگائی میں کمی کے امکان کو مسترد کرتے ہیں جب کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے قبل سے ہی موجودہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح بلند رہنے کی پیش کش کر رکھی ہے ادھر حکومت پاکستان نے جمعرات کو پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تعجب کی بات یہ کہ موجودہ حکومت مہنگائی کو سب سے بڑا بحران بتا کر حکومت میں آئی تھی مگر پاکستانی عوام کو اس سے چھٹکارا نہی دلا سکی ہے۔
خیر ہمیں یہ بتانا مقصود ہے کہ جس طرح مہنگائی کی مار پہلے تھی آج بھی ہے عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد نئی حکومت بھی اس سے نپٹنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اس سے ایک بات توصاف ہو جاتی ہے کہ آج کے حالات میں مہنگائی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا مسئلہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے اس مہنگائی سے ہندوستان بھی گزر رہا ہے ملکی مفاد کی خاطر مہنگائی کو نظرانداز کیا جارہا ہے اس مہنگائی سے نمٹنے کے لیے اور بھی راستے طور طریقے ہو سکتے تھے ایک بہتر حکومت کو گرانا مہنگائی کے خاتمے کا حل کیسے ہو سکتا ہے قابل ذکر ہے کہ عمران خان نے شہر مدینہ کے طرززندگی کا خواب پاکستان کے لئے دیکھا تھا انہوں نے پاکستان بھر کے علما کو مدعو کیا اور ان سے صلاح ومشورہ کیا۔
اس سلسلے میں پاکستان اور دنیا کے عظیم داعی و مبلغ مولانا طارق جمیل صاحب کا بیان قابل ذکر ہے انہوں نے عمران خان کے بارے میں کہا کہ عمران نے ہمیں مدعو کیا اور کہا کہ مولانا آپ ہمیں بتائیں کہ ہم کو پاکستان کی نئی نسل کو کیسے تربیت کرنی ہے اور ان کی دینی اخلاقی تعلیمی اور معاشی اصلاح کس طرح کی جانی چاہیے پاکستان کو شہر مدینہ کی طرز پر کیسے چلانا چاہیے یہ چیزیں عمران کو پاکستان کے دیگر حکمرانوں سے ممتاز بناتی ہیں پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کے وہم و خیال میں شاید یہ باتیں نہی ہوں گیں۔
عمران خان کے سلسلے میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ذکر حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر اکثر ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے پاس عشق کا سرور اور دل میں یقین کا نور ہے جب کہ ہم ان کے حریفوں میں شاطرانہ عیاری ،مکاری، سیاسی داؤ پیچ ،مطلب و ہوس پرستی کے سوا کچھ نہیں دیکھ سکتے مریم نواز بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کو پاکستانی انقلاب ،قوم کی بالادستی اور ملکی مفاد میں عمران کا ساتھ دینا چاہئے تھا اگر ایسا ہوتا تو یقیناً پاکستان ایک نیا پاکستان بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرتا مگر افسوس ہر بار کی طرح اقتدار اور کرسی کی ہوس نے ایک انقلاب کو پروان چڑھنے سے محروم رکھا اور شاطرانہ اور ڈرامائی انداز میں عمران خان کو حکومت سے برطرف کردیا گیا۔
جس میں یقینا غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ تھا امریکہ اور یورپ کے تہذیب و تمدن کے شیدائی جنہوں نے مصر میں اخوان المسلمین کی اسلام نواز اور شریعت پر مبنی فکر و سوچ کو پروان چڑھنے سے روکا جن لوگوں کی ترکی میں اسلام کے بہتر مستقبل کے تصور سے روح کانپ جاتی ہے جن لوگوں نے خادم حرمین شریفین کو اپنی گرفت میں کئے ہوئے ہے بھلا ان کو پاکستان میں خود مختار غیرت مند خدائے برحق کو تسلیم کرنے والا اسلامی اقدار و اصول تہذیب و تمدن فکر و خیال کے حامل عمران حکومت کو کیسے برداشت کر سکتے تھے آپنی خفیہ ایجنسیوں کو استعمال کرکے چند منافقوں کا سودا کر کے اس سبز انقلاب کو کچل ڈالا اس طرح پاکستان ایک بار پھر اپنے تاریک دور اور بدنامی و رسوائی کےعمیق غار میں جا گرا جہاں وہ پہلے پڑا تھا۔
عمران خان پاکستان کا ترجمان تھا اس بات کو سمجھنے کے لئے عمران کی اس تقریر کو ضرور سننا چاہیے جو اقوام متحدہ اور امریکی یونین کے سامنے انہوں نے کیا تھا اس کا ایک ایک لفظ اور جملہ واضح کرتا ہے کہ عمران یورپ کے خداؤں کے سامنے ایک بدلے ہویے پاکستان کی ترجمانی کر رہے تھے جہاں اللہ کی طاقت ہی بس ہے سنت و شریعت ہی زندگی کا شیوہ ہے عمران نے دنیا کی نگاہوں خاص کر امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بتایا تھا کہ اب ہمارا پاکستان وہ نہیں جس کو لالچ دے کر یا ڈرا کروہ اپنا الو سیدھا کرتے رہے ہین،
انہوں نے پاکستان کا ترجمان بن کر یورپ و امریکہ کی غلط پالیسیوں کی نشاندہی بھی کی تھی انہیں آئینہ دکھانے کا کام بھی کیا یہ تاریخ میں پہلا اتفاق تھا کہ کوئی پاکستانی امریکہ اور یورپی یونین کو آئینہ دکھا رہا ہوں مجھے معلوم نہیں پاکستان کی دیگر پارٹیوں نے سنایا نہیں اگر سنا بھی تو اس کی اہمیت ان کے دلوں و دماغ میں کس قدر ہے مگر عوام نے ضرور سننا یہی وجہ ہے کہ عوام اپنے قومی ترجمان عمران خان کے ساتھ ہیں۔
ان کی لونگ مارچ میں عوام کا جم غفیر دیکھنے کو مل رہا ہے مگر حزب اختلاف جو بد قسمتی سے اب صاحب اقتدار ہے اپنے ترجمان کو کمزور کیا اور اس طرح پاکستان اپنے بے لوث خادم بے باک مقرر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ترجمانی کرنے والے سچے عاشق رسول قائداعظم کی نیابت کرنے والے قائد سے محروم ہو گیا۔ جس کا احساس پاکستان اور پوری اسلامی دنیا کو کچھ تاخیر سےسہی مگر ضرور ہوگا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…