ایم بی آئی عربک اسکول قدوائی نگر ایٹہ میں بعنوان’’جاں نثار اخترؔ کی شاعرانہ عظمت‘‘ ایک روزہ سیمینار کا انعقاد
والدہ بشیرن بیگم الپ سنکھیک ایجو کیشنل سدھار اور اُتھان سمیتی ایٹہ اور اردو اکادمی اتر پردیش کے زیرِ اہتمام مدرسہ برکاتیہ اسلامیہ عربک اسکول قدوائی نگر ایٹہ میں بعنوان’’جاں نثار اخترؔ کی شاعرانہ عظمت‘‘ پر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا۔
پروگرام کی صدارت استاد الشعرا ڈاکٹر الیاس نویدؔ گنوری نے کی جب کہ مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر اجیت کمار ضلع الپ سنکھیک کلیاڑادھیکاری ایٹہ اور مہمانانِ اعزازی کی حیثیت سے سماجی کارکن ظہیر احمد اور شرافت حسین عرف کالے نے شرکت کی۔پروگرام کی نظامت کے فرائض ایڈوکیٹ مجاہد مقصود پوری اور دیانند شری واستو نے مشترکہ طور پر انجام دئیے۔
اس موقع پرمقامی و بیرونی مقالہ نگاران نے جاں نثار اخترؔ کی شاعری پر اظہارِ خیال کیا۔ پروگرام کے کنوینر اور والدہ بشیرن بیگم الپ سنکھیک ایجوکیشنل سدھار اور اُتھان سمیتی کے سکریٹری نے تمام شرکاکا ہار پہنا کر استقبال کیا۔اس سلسلے سے انھوں نے کہا کہ’’ہمارامقصد اردو ادب کو فروغ دینا ہے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ اردو ادب کی جانب راغب کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے آج کی سیمینار جاں نثار اخترؔ پر رکھی ہے کیوں کہ جاں نثار اخترؔ کی شاعری میں عوام کا درد اور غم جھلکتا ہے وہ ایک انقلابی شاعر ہیں اور ان کی شاعری عام فہم الفاظ سے سجی ہوئی ہے‘‘۔
پروگرام کے صدر ڈاکٹر الیاس نویدؔ گنوری نے کہا کہ’’جاں نثار اخترؔ کی شاعری رومانی اور انقلابی فکر کا بہترین سنگم ہے۔ان کے یہاں کوئی پیچیدگی نہیں بلکہ وہ سیدھے سادھے الفاظ میں بڑی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں‘‘۔اس موقع پر نظامت کے دوران ایڈوکیٹ مجاہد مقصود پوری نے جاں نثار اخترؔ کا مکمل تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ہم آج جاں نثار اخترؔ کو سیمینار کے ذریعے سے اس لئے یاد کر رہے ہیں کیوں کہ ان کی شاعری میں ایک مخصوص قسم کی جاذبیت پائی جاتی ہے اس میں عوام کے رنج و غم کے ساتھ ساتھ ذاتی زندگی کی بھی کشمکش خوب نظر آتی ہے‘‘۔م
قالہ نگار انجینئر محمد عادل نے کہا کہ جاں نثار اخترؔ کی شاعری کو سائنس کے نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ شاعر اور سائنس داں دونوں ہی فکر کے ذریعے سے کچھ نہ کچھ نیا کرنے اور کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔جاں نثار اخترؔ کی فکر بھی مسلسل پرواز کرتی رہتی ہے اور ان کی شاعری میں بھی زندگی کی ترقی کی طرف آمادہ کیا گیا ہے‘‘۔
مقالہ نگار سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی نے کہا کہ ’’ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کے دور میں جاں نثار اخترؔ کی شاعری کیوں پڑھی جائے اس میں کیا خوبی ہے جو جاں نثار اخترؔ کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے تو مطالعہ سے ثابت ہوگا کہ جاں نثار اخترؔ کے یہاں حسن و عشق کے جذبات کے ساتھ ساتھ عوام کے مسائل بھی ملتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا‘‘۔اس کے علاوہ کے کے مشرا،دیانند شری واستو اور ظہیر احمد نے بھی سیمینا میں گفتگو کی اور جاں نثار اخترؔ کی شاعری پر روشنی ڈالی۔
آخر میں مولانا عرفان رضا نے تمام حاضرین اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔پروگرام کو کامیاب بنانے والوں میں چودھری کیف الوریٰ،جیتندر کمار، ایس ایم عادل ،پروگرام کے کوکنوینر قیوم،حاجی عظیم الدین،حاجی شہزاد،حافظ مشیر،آزاد احمد،فیروز خان اور ڈاکٹر چمن کا اہم کردار رہا۔شرکت کرنے میں کثیر تعداد میں خواتین اور مدارس کے طلباو طالبات بھی رہے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…