فکر و نظر

تشدد کی آگ میں جلتا منی پور، کیا ہے وجہ؟

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

منی پور شمال مشرق میں واقع ایک چھوٹی ریاست ہے، اس کا انضمام بھارت میں 15؍ اکتوبر 1949 کوہوا تھا ، لیکن اسے مستقل ریاست کا درجہ1972میں مل سکا، 1964 سے یہاں دہشت گرد تنظیموں کے پاؤں جمنے لگے، اسی سال یونائیٹڈ نیشنل لبریشن (UNLF)نامی تنظیم وجود میں آئی، 1977 میں پوپلس لبریشن آرمی (PLA) 1980 میں کانگ لوئی یاک کمیونسٹ پارٹی(KCP)اور 1994ء میں کانگ لوئی یووا کنا لوپ (KYEKL)نامی تنظیمیں قائم ہوئیں ان سبھوں کا مشترکہ خیال یہ ہے کہ منی پور کو بھارت نے جبرا ًاپنے میں شامل کر لیا ہے۔

 منی پور کے پہاڑی علاقوں میں ناگا قبائل رہتے ہیں، اس لیے انہوں نے گریٹر ناگالینڈکے نام پر منی پور کو اس میں شامل کرنے کے لیے پر تشدد تحریکیں چلائیں۔ 1990ء کی دہائی کے آغاز میں ناگا کو کی قبائل کے درمیان مزاحمت شروع ہوئی، بعد میں کوکی قبائل نے کوکی لینڈ کے نام سے الگ ریاست کا مطالبہ شروع کر دیا، 2008 میں مختلف کوکی تنظیموں اور بھارت سرکار کے درمیان سمجھوتا ہو گیا، یہ ایک قبائلی ریاست ہے، یہاں مختلف قبیلے کے لوگ بستے ہیں، لیکن یہاں 53؍ فی صد متئی قبیلے کے لوگ ہیں اور کوکی قبیلہ کی آبادی چالیس فی صد ہے، متئی قبیلہ کے لوگ قانونی اعتبار سے گھاٹی اور میدانی علاقوں میں بس سکتے ہیں۔

 ناگا اور کوکی قبائل کو پہاڑی اور میدانی دونوں علاقوں میں بسنے کی آزادی ہے، انہیں آدی باسی تحفظات حاصل ہیں، جب کہ میتی قبیلہ کو صرف میدانی علاقوں میں بسنے کی اجازت ہے، وہ پہاڑی علاقہ میں زمین بھی خریدنہیں سکتے، ان کے بسنے کے لیے صرف دس فیصد علاقہ ہی منی پور میں بچتا ہے، کیوں کہ منی پور کا نوے فی صد علاقہ پہاڑی ہے، اس طرح چالیس فی صد آبادی والے ناگا کو کی دبدبہ قائم ہے۔ 19؍ اپریل کو منی پور ہائی کورٹ نے متئی قبیلہ کو بھی درج فہرست قبائل میں شامل کرنے کا فیصلہ سنایا اور منی پور حکومت کو حکم دیا کہ وہ ایک ماہ کے اندر یہ تجویز حکومت ہند کو بھیجے، یہ فیصلہ چوں کہ ناگا کوکی قبائل کے حق میں نہیں تھا اس لیے کہ اس فیصلہ کے بعد متئی کے لیے پہاڑوں میں بسنا قانونی ہوجائے گا اور نوے فی صد پہاڑی علاقوں میں وہ بھی بود وباش کر سکیں گے۔

چناں چہ نا گا اور کوکی قبائل نے پر تشدد احتجاج شروع کر دیا، متئی کی آبادی بہت ہے اس لیے وہ بھی اس کی حمایت میں سڑکوں پر اتر آئے، پھر کیا تھا مزاحمت ہوئی اور منی پور تشدد کی آگ میں جل گیا، کوئی علاقہ محفوظ نہیں ہے، سو سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں اور زخمیوں کا شمار ممکن نہیں ، کوئی اورریاست ہوتی تو لااینڈ آرڈر کے فیل ہونے کے نام پر وزیر داخلہ امیت شاہ صدر راج نافذ کروا دیتے، لیکن یہاں وزیر اعلیٰ محبوب نظر ہیں۔

اس لیے صرف رپورٹ مانگ لی گئی ہے، لیکن آتش زنی اور مار کاٹ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور یہ خوب صورت ریاست خاکستر ہوتی جا رہی ہے۔ ضرورت ہے کہ مرکزی حکومت یہاں کی حکومت کو برخواست کرکے صدر راج نافذ کرے اور چھ ماہ کے اندر وہاں انتخاب کرایاجائے، جو نئی حکومت اقتدار میں آئے وہ مختلف مزاحم تنظیموں سے مذاکرات کرکے امن کی راہ نکالے، اگر فوری طور پر ایسا نہیں کیا گیا تو منی پور میں امن کا قیام دن بدل مشکل ہوتا جائے گا۔

Dr. R. Misbahi

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago