پروفیسر ابوبکرعباد(شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی، دہلی)
حیات ولی کے ایوان میں داخل ہونے سے پہلے اجازت دیجیے کہ چند ذاتی نوعیت کی باتیں کرلوں ۔ یہ ،باتیں ان دنوں کی ہیں جب امی جان کی محبت بھری آغوش سے دور ابوجان کے سایۂ عاطفت میں شہر علم دارالعلوم دیوبند کو ہی اصل گھر سمجھنے لگاتھا۔ بچپنے کے کچے ذہن کے علاوہ گاؤں اور امی جان کو اتنی جلد بھولنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہاں آزادی اور کھیل کود کے خوب مواقع تھے ، ننھی منی خواہشوں کی تکمیل آسان تھی اور من مانی پر کوئی پابندی نہ تھی۔ تب بالکل نہیں جانتا تھا کہ میری چھوٹی سی عمر کتنے برس کی رہی ہوگی ۔بس یوں جانیے کہ پانی بھر ا لوٹا بمشکل اٹھا پاتا تھا۔ قواعد بغدادی پڑھنے کی عارضی اور آزادانہ ذمہ داری کے علاوہ رنگ برنگے کنچوں سے کھیلنا ،اپنی کتاب اور بھائیوں کی کاپیوں پر لال پیلی ، گلابی ہری پینسل سے آڑی ترچھی لکیریں گھسنااور نیلے آسمان میں چاند ستاروں سی خوشنما اڑتی پتنگوں کو دیکھنااورچمن میںتتلیوں کے پیچھے بھاگنامیرادلچسپ مشغلہ تھا ۔یا شاید یہ سب ابوجان کا بناہوا وہ دلفریب جال تھا جس میں الجھاکر وہ مجھے آئندہ زندگی اور علم کی الف ،ب،ت،ث ،پڑھا رہے تھے۔
ابوجان سے ملنے بہت سے لوگ آتے تھے ، لیکن سب ایک ہی جیسے مولوی ، مولانا ہوتے ۔جن کے لہجے ابو جان سے دمِ گفتگو بالعموم نیازمندانہ،عقیدتمندانہ یا مہذبانہ ہوتے ،مجھ سے مخاطب ہوتے تو برتاؤ انتہائی عالمانہ اور سرپرستانہ ہوجاتا۔خدا جانے کیوںاُن کے پیار میں بھی ایک نوع کی کرختگی کی بوباس ہوتی۔ کیا نام ہے؟ گھر کہاں ہے؟ والد صاحب کا نام کیا ہے ،کیا پڑھ رہے ہو؟خوب پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بننا،زیادہ کھیلنا مت ،وغیرہ قسم کے سوالات و اپدیش۔سچی بات تویہ ہے کہ چڑجاتا تھا میں ایسے لوگوں اور ایسی باتوں سے ۔ جی چاہتا کہہ دوں :’ کیا آپ نہیں جانتے میرے نام ، گھر اور والد کو؟‘جائیے مجھے نہیں بننا بڑا وڑاآدمی پڑھ لکھ کر ، میں تو کھیلوں گا، آپ ہی رہیں بڑے آدمی ، خوب پڑھیے الف ،ب،ت،ث،ج۔
بچپنے کے ایسے ہی موسم کی ایک سرمئی شام تھی ۔ابوجان سے ایک مولوی صاحب ملنے آئے تھے ۔لیکن وہ دوسرے مولوی مولانا ؤں کے سے نہ تھے ۔ان کا کرتا پاجامہ اور ٹوپی ضرورت سے زیادہ ستھرے تھے اور چمکدار آنکھیں ان سے بھی زیادہ شفاف۔آواز میں کھنک اور شیرینی تھی ، نظروںمیںمحبت و مٹھاس کی لہریں،لہجے میں وقار اور ایک نوع کی شوخی تھی اور گفتگو احترام،اپنائیت اورقدرے بے تکلفی سے شرابور۔ ابوجان سے باتیں کرتے کرتے وہ میری طرف متوجہ ہوئے : ’ارے آپ کے کنچے تو بہت خوبصورت ہیں،دیکھوں تو‘۔میں نے سارے کنچے ان کے آگے دھر دیے ۔’’یہ لا ل کنچا میں لے لوں؟‘‘ میں نے پہلے کنچے کو پھر انھیں دیکھا:یہ تو نیلاہے۔’’اچھا ! نیلاہے؟ تو یہ کالاوالا لے لوں؟‘‘ مجھے ہنسی آگئی ۔یہ تو ہرا ہے۔’’بھئی آپ تو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔مجھے بھی کھلائیں گے اپنے ساتھ ؟‘‘ میں نے مارے خوشی کے ایک کے بجائے تین چار بار ’ہاں‘ میں سر ہلادیا ۔ ابوجان بھی ہنسنے لگے تھے۔ تب تک کی زندگی میں مولانا محمد حسین صاحب بہاری کے بعد یہ دوسرے آدمی تھے جو من کو بھائے اورذہن کے پردے پر نقش ہوگئے ۔ابوجان کی بات چیت سے میں نے اندازہ لگالیاتھا کہ ان کا نام ’ پیر جی‘ ہے۔ سو ، وہ مولا نا صاحب ،مولانا صاحب کا ’پیر جی‘ نام اور ان کا بچے سے انوکھا برتاؤ دل میں گھر گیا ۔ ’’اچھا !آج تو نہیں ، اگلی بار آیا تو آپ کے ساتھ کھیلوں گا۔‘‘پیر جی نے کہا اور پھر وہ ابوجان سے باتیں کرنے لگے۔
’پیرجی ‘سے اگلی ملاقات ہوئی تو میں جوان ہوچکاتھا، اور کب کا جان گیا تھا کہ ان کا نام ’پیر جی‘ نہیں، مولانا محمد ولی رحمانی ہے جنھیں ابوجان از راہ شفقت و محبت’پیرجی‘ کہتے ہیں،اور اسی نسبت سے ہم تمام بھائی اور گھر کے افراد انھیں ’پیر جی ‘کے نام سے ہی مخاطب اور یاد کرتے ہیں۔ اوریہ بھی کہ پیر جی ابوجان کے شاگرد ہیں، اور اب میں ان کی شاگردی میں تھا۔ میں نے ’پیر جی‘ اور ابوجان جیسا باہم اخلاص و احترام ، محبت و بے تکلفی کا جذبہ اور ایک دوسرے کا دل وجان سے خیال رکھنے ولا رشتہ کسی دینی اور عصری علوم کے استاذ اور شاگرد کے مابین اب تک نہیں دیکھا ۔ بالخصوص تب ،جب استاذ محترم حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒنے ابوجان (مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحیؒ) کو 1986میں ’مجموعہ قوانین اسلامی ‘ کی تیاری کے سلسلے میں دارالعلوم دیوبند سے چھ مہینے کے لیے جامعہ رحمانی خانقاہ بلوایاتھا۔
پیر جی کی شخصیت اکہری نہیں ہمہ جہت تھی، اور صلاحیتیں بے پناہ۔وہ انتہائی ذہین و طباع انسان ، دیندار عالم،اچھے ادیب، بہترین خطیب،عمدہ صحافی، سحربیان مقرر،مشفق استاذ، اعلیٰ منتظم کار، ممتاز ماہر تعلیم ،دین و دنیا کے اسرار و رموز سے واقف وسیع الفہم مدبر،معروف مصنف ،دور اندیش قائد،باشعور مصلح، روشن ضمیر مرشد ،اسلام کے مفکر اور ذی وقار وجرأت مند سیاستداںبھی تھے۔ایمان کی بات تو یہ ہے کہ پچھلی چار دہائیوں میںان جیسا باخبر ،بے باک ، باصلاحیت ،بردبار، مخلص، حالاتِ حاضرہ سے آشنا اور مستقبل شناس سیاستداں علماء کی جماعت یا مسلم تنظیموں میں کوئی اور نہیں ہوا۔ انھوں نے حکومت کی کسی بھی غلط پالیسی کی کبھی تائید نہیںکی،ملک و ملت سے منافقت نہیں کی ، حکام کے جبر کے آگے جھکے نہیںاور مذہبی اور ملی مسائل اٹھانے سے کبھی گریز نہیں کیا ۔ خواہ ایمرجینسی کے زمانے میں حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے ساتھ کتابچے اور پمفلٹ تیار کرنے کا مرحلہ ہو، شاہ بانو کیس تحریک کو منظم کرنے مسئلہ ہو،حکومت میں شراکت داری کے لیے مسلم نوجوانوں کی عصری تعلیمی اداروں کی تشکیل کا معاملہ ہو یا اس سے پہلے بہار کی عملی سیاست میں رہ کر دین و سیاست کی ہم آمیزی کا شاندار مظاہرہ ہو، ہر جگہ وہ اپنی مثال آپ نظر آتے ہیں۔ یونیفارم سول کوڈ، بنگلہ دیشی شہریت کا تنازع،داڑھی کے حوالے سے مذہبی تشخص کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کی واپسی جیسے متعدد مسائل ہیں جن کے لیے مولانامحمد ولی رحمانی نے تحریکی ، قانونی اور سیاسی طریقے اپنائے اوراپنی سعی و جہد کے ذریعے ان ملی معاملات میں کامیابیاں حاصل کیں۔
وہ تقریباً بائیس برسوں تک بہارودھان پریشد کے ممبر رہے، اور اس عرصے میں اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور انصاف پسندی کے باعث دوبار ڈپٹی چیئرمین بھی منتخب کیے گئے ۔ سیاست کی اس سیاہ و سفید بساط پر وہ پیادہ ، فیل ، شتر اور اسپ کی طرح نہیںہمیشہ شاہ کی مانند رہے، اپنے اصولوں پر چلے اور اپنی شرطوں پہ زندگی کی۔انھوں نے تمام اہم مسائل کی تہہ تک پہنچنے کی کوششیں کیں، معاملات کی نزاکتوں پر نظر رکھی، در پیش قوانین کے خوب و ناخوب پہلوؤں کے بروقت جائزے لیے اور ضروری کاروائیاں کیں۔ایک طرف لوگ ان کی دلکش تقریروں ، دانشمندانہ فیصلوں،بشر دوستی کے رویوں اور حیرت انگیز معاملہ فہمی کی بنا پران کے گرویدہ ہو رہے تھے ، تو دوسری جانب ان کی بے باکی،دیانت ، جرأت مندانہ قیادت،خود داری،حق گوئی اور واضح آزادی اظہار سے نالاں اپنے اور غیروں پر مشتمل ان کے بدخواہوں اور دشمنوں کی ایک ٹولی بھی تیار ہوتی گئی۔چنانچے ان کے خلاف سازشیں رچی گئیں، بے بنیاد الزامات لگائے گئے ، ایمرجینسی کے موقع پر پرائم منسٹر کو منفی رپورٹ بھیجی گئی ، یہاں تک کہ ان کے قتل کے پلان بھی تیار کیے گئے ۔ لیکن مسبب الاسباب کے کرم اور ان کی دانش مندی نے تمام بلاؤں سے انھیں محفوظ رکھا، سو، واقف کاروں کا ایک بار پھر ’اِنَّ البٰطِلَ کانَ زَھوقاً ‘کی حقانیت پر عقیدہ راسخ ہوا، اور دور کھڑے لوگوں نے’ ستیہ میو جیہ تے ‘ کا پاٹھ پڑھا۔
استاذ ذی قدر مولانا محمد ولی رحمانی اکثر کہا کرتے تھے کہ کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ترازو کے ایک پلڑے پر سیکڑوں مینڈک کو اکٹھا کرنا تو ممکن ہے ،مگر کسی ایک پلیٹ فارم پر چندمسلمانوں کو جمع کرنا ممکن نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ مکمل اجماع کے مقابلے اکثریت کے ،اور اکثریت کے مقابلے حق و صداقت کے قائل تھے ۔چند لوگوں کو ان کا یہ قول اور طور انا پسندانہ ،یا کہیے کافی حد تک تکبرانہ لگتا تھا،لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یہی الوہی اور پیغمبرانہ طریقہ بھی ہے اور واضح اور پریکٹیکل حقیقت بھی ۔ سیاست تو جانے دیجیے زندگی کے کسی معاملے میں صد فی صد کا فارمولہ تقریباًنا ممکن العمل ہے،اور جو حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں وہ دراصل خوابوں کی دنیا یا معصومیت کے موسم میں رہ رہے ہیں۔
دو دو بار اتحاد امت اور استحکام ادارہ کے تعلق سے ایثار و قربانی کے باوجود بھی اُن کی امارت شرعیہ کی زندگی بہت مامون نہ تھی ، بحیثیت امیرشریعت ان کے لیے راستہ ہموار اور اسلاف کی ختم ہوتی وراثت کا تحفظ آسان نہ تھا۔ادارے کے خیر خواہوں کی شناخت سہل سہی ، خود غرضوں کی پہچان آسان نہ تھی۔خوبصورت باغ کے کار آمد درختوں سے جڑ پکڑ چکے ناکارہ پیڑوں کو ہٹانا مشکل اور جوکھم بھرا ہوتا ہے ،لیکن دانا اور دیانتدار مالی وہی کہلاتاہے جو سخت فیصلے لے کرباغ کی تنزیہ پر توجہ دے ،اسے خس و خاشاس سے پاک کرے اور زبردستی اگ آئے نقصان دہ پیڑوں کو اکھاڑ باہر کرے، اس مصلحت یا مخالفت کی پروا کیے بغیر کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ یا لوگ کیا کہیں گے؟
یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ تیزی سے بدلتے حالات نے امارت شرعیہ کو عامۃ المسلمین کی پہنچ سے دور اور صوبائی اور ملکی سیاست دانوں سے قریب کے دوراہے پرلا کھڑا کیاتھا ۔یہ مولانا ولی رحمانی کی سیاسی بصیرت تھی کہ انھوں نے امارت کو عام مسلمانوں سے نزدیک کیا اور عوامی فلاح کے مزید اسباب پیدا کیے۔
غالباًایسا کوئی عرصہ نہیں رہاہے کہ مسلمانوں یا علماء کی جماعت میںسیاستداں نہ رہے ہوں ۔ لیکن جو سیاسی شعور و آگہی،دینی و دنیاوی فہم، تاریخی بصیرت،حصول حقوق کی لگن ،کردار کی پختگی ،بیدار مغزی ،استقلال مزاج اور جرأت و حوصلہ مندی مولانا محمدولی رحمانی میں تھی اس کی مثالیں شاذ ہیں۔ اور شاید یہ کہنا بے جا نہ ہو کہ مولانا محمد ولی رحمانی کو یہ اوصاف کچھ تو ان کی ذاتی سعی و جہد ، نجی تجربات،وسیع مطالعہ و مشاہدہ اور زبردست خود اعتمادی کی بنا پر حاصل ہوئے ،اور بہت کچھ بانی امارت مولانا محمد سجاد اور حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کا فیضان تھا جو وراثتاً ان تک منتقل ہوا۔ یاد کیا جانا چاہیے کہ باضابطہ عالم کی حیثیت سے مولانا محمد سجاد پہلے سیاستداں تھے جنھوں نے متعدد تحریکیں چلائیں، امت اور علماء کے سامنے متعدد مفید تجویزیں پیش کیں، اہم اداروں کی بنا ڈالی،باصلاحیت اشخاص پیدا کیے اور صوبۂ بہار میں اپنی کوششوں سے ’مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی‘ بنائی اور اس کی حکومت بھی قائم کی۔ امارت شرعیہ اورجمعیۃ العلماء ہند،جیسے ادارے کی تشکیل ،مولانا عبدالصمد اور مولانا منت اللہ رحمانی جیسے نابغۂ روزگار کی تربیت ،اور لگان ٹیکس میں کمی، وقف کی جائیداد کو ٹیکس سے مستثنیٰ رکھنا، پہلی بار بہار کی کچہریوں میںاردو زبان کے استعمال کو لاگو کروانا اورڈاوری بل جیسے قوانین میں ترمیم اور ان کا نفاذاس کی واضح مثالیں ہیں۔خود مولانا محمدسجاد اس پارٹی کے صدر، بیرسٹر محمود جنرل سکریٹری اور مولانا منت اللہ رحمانی پبلیسٹی سکریٹری تھے ۔ مولانا منت اللہ رحمانی کے کارناموں میں ، جامعہ رحمانی خانقاہ کی تاسیس، کتب خانہ رحمانیہ کا قیام ،امارت شرعیہ کی تشکیل نو، مولانا سجاد ہاسپیٹل کی تعمیر ، مسلم پرسنل لاء کی تحریک،قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولاناولی رحمانی جیسے بہت سے اساتذہ، مفتیان کرام اور اشخاص کی تربیت شامل ہے ۔ مولانا محمد ولی رحمانی کے کارناموں میں رحمانی فاؤنڈیشن،رحمانی تھرٹی، امارت شرعیہ کی توسیع و تنزیہ اور دوسرے اداروں کے قیام و استحکام اور اشخاص کی ایک جماعت کی تیار ی کو شامل کرنا چاہیے۔ ان کے تعلیمی، تحریکی ،ادبی ، صحافتی،اور سیاسی کارناموں کے مطالعہ و مشاہدے کے بعد اس محاورے پر یقین اور بھی پختہ ہوجاتاہے کہ ’ ہر آنے والی نسل اپنی پچھلی نسل سے زیادہ ذہین،محنتی ،دوراندیش اور خلاق ہوتی ہے۔‘
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا محمد ولی رحمانی کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ملک و ملت کی تحریکی اور عملی سیاست کے لیے وقف تھا ۔لیکن اگر غور کیجیے تو نظام زندگی کے مختلف شعبوں میں وہ اپنی سیاسی بصیرت کو بروئے کار لاتے تھے۔ ان کی سیاسی دور اندیشی کی ایک واضح مثال دینی مدارس کے نصاب تعلیم سے متعلق ان کی پیش کردہ تجاویز بھی ہیں، جنھیں ہمارے علما بوجوہ عملی جامہ پہنانے کو تیار نہیں ۔ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ان کی یہ رائے بہت ہی دانشمندانہ تھی کہ دینی مدارس کے نصاب میں صنعت حرفت کے کورس کو بھی شامل کیا جاناچاہیے۔یوں جانیے کہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ ووکیشنل تعلیم کے طرفدار تھے۔ تاکہ مدرسوں کے فارغین کو حال یا مستقبل میں معاشی افلاس،عوامی اجنبیت اور خوشحالوں کی حقارت کا شکار نہ ہونا پڑے ، نہ ہی انھیں مساجد و مدارس کے محدودوسائل پر انحصار اوربدرجہ ٔ مجبوری توکل و قناعت اختیار کرنا پڑے۔ مولانا ولی رحمانی کے مطابق مدرسوں میں ایسا نصاب تیار ہونا چاہیے کہ وہاں کے فارغین اپنے ایک ہاتھ میں دین تو دوسرے میں دنیا رکھ کرمین اسٹریم میں نہایت شان اور اعلیٰ امتیاز وافتخار کے ساتھ شامل ہوسکیں ۔کہ رہبانیت کے مقابلے یہی مستحسن اسلامی دستور زندگی بھی ہے ۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج معاشی لحاظ سے اعلیٰ اور متوسط طبقے کے افراد تو کیا نچلے طبقے کے لوگ بھی اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے دینی مدارس میں کم ہی بھیجتے ہیں، کیونکہ مذہبی مسائل سے زیادہ معاشی استحکام کا سوال انھیں خوفزدہ کرتا ہے۔ دوسری جانب متعدد ریاستوں کی حکومتیں دینی مدارس کو بند اوروہاں دی جانے والی خالص مذہبی تعلیم کو اس بہانے ختم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں کہ ہندوستانی سماج کے ایک بڑے طبقے میں اس سے بے روزگاروں کی تعدادمیںاضافہ ہورہا ہے، اورمعاشی امکانات محدود ہوتے جارہے ہیں ، اس لیے انھیں مین اسٹریم کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں یہ خطرہ اور سنگین صورت حال اختیار کرے گا۔ خودمرکزی حکومت نے نیو ایجوکیشن پالیسی 2022 میں صنعت و حرفت کو بنیادی حیثیت دی ہے اورروایتی کورس کا اسٹرکچر ایسا بنایا ہے کہ اگر طالبعلم کورس مکمل کرنے سے پہلے درمیان میں تعلیم منقطع کرنا چاہے تو ڈپلومہ کی ڈگری لے کر منتخب کیے ہوئے صنعت و حرفت کے مضامین میں سے وہ کوئی پیشہ اختیار کرسکتا ہے ۔ اس حوالے سے اب ذرا مولانا محمد ولی رحمانی کی سیاسی بصیرت اور ان کی دور اندیشی پر غور کیجیے کہ آج ہمارے تعلیمی کمیشن نے جن تجاویز کو نافذ کیا ہے ، مولانا محمد ولی رحمانی نے امت مسلمہ، علماء کرام اور ذمہ داران مدارس کے سامنے 1981 میںچالیس اکتالیس برس پہلے نہ صرف پیش کی تھیں ،بلکہ اس کے نفاذ کی ترغیب کے لیے جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں دینی مدارس تعلیمی کنونشن کا بھی انعقاد کیا تھا۔ان کی تجویز کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ دینی مدارس کے کچھ با صلاحیت طلبہ کو منتخب کرکے انھیں پوری طرح سے ایسا عالم دین اور خادم دین بننے کی تربیت دی جائے جن کا کام روزی تلاش کرنا نہیں،بلکہ دینی علوم کی تحقیق، تصنیف و تالیف اور دین کی نشرواشاعت ہو ،اور ان کی مکمل کفالت کی ذمہ داری ملی ادارے اٹھائیں۔ ان کے مقالے سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں دونوں طرح کے نصاب کی قدرے وضاحت آگئی ہے :
’’ مدارس میں آج جو بھیڑ جمع ہے ، مقصد اور کام کی جہت سے ناآشنافارغین کی جو کھیپ تیار ہورہی ہے اس پر غور کرنا چاہیے ، اور ضرورت ہو تو اس میں انقلابی تبدیلیاں لانی چاہئیں ۔ میرا احساس ہے کہ ہر طالبعلم کو ماہر علم دین بنانے کی کوشش نہ مفید ہے ، نہ صحیح، نہ ہر طالبعلم میں اس کی استعداد ہوتی ہے ،اور نہ ہر شخص کے حالات اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ مدارس کے ذمہ دار اور علماء کرام دو قسم کا نصاب تعلیم بنائیں ۔ ایک تو ان تمام طلبہ کے لیے جو مدارس میں آتے ہیں،انھیں تین برسوںمیں اردو کے ذریعے دینیات سے واقف کرایا جائے۔ عقیدہ، حدیث، فقہ اور تاریخ کی تعلیم دی جائے ، اور ان میں اتنی استعداد پیدا کردی جائے کہ وہ دین کو اچھی طرح سمجھ لیں،۔۔۔۔اور ساتھ ہی انھیں چھوٹی صنعت کی تعلیم دی جائے ۔اور جو اونچی صنعتی تعلیم حاصل کرنا چاہیں، انھیں جزوی دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کے ساتھ اعلیٰ صنعتی تعلیم کی سہولت بہم پہنچائی جائے ۔ ان پر عربی علوم اور براہ راست قران، حدیث کے سمجھنے کا بوجھ نہ دیا جائے جائے ،۔۔۔ اور انھیںطلبہ میںکچھ ایسے افراد کو منتخب کرلیا جائے جنھیں خدا تعالیٰ نے امتیازی صلاحیت اور لیاقت دی ہے جن میں خدمت کارجحان ،خلوص کا انداز، ایثار کا جذبہ ، توکل کے آثار اور دین کی خاطر کچھ کرنے کا عزم ہو۔ ان منتخب طلبہ کو منتخب تعلیم گاہوں میںعربی زبان کے ذریعہ علوم اسلامیہ سے واقف کرایاجائے ، حالات کے پیش نظر نصاب تعلیم مرتب کیا جائے ۔ بارہ برس تک ان کی ایسی تعلیم وتربیت کی جائے کہ وہ واقعتاً عالم دین اور خادم دین بن جائیں۔یہ حضرات اپنا پورا وقت دینی کاموں ، دینی علوم کی تحقیق ، تصنیف و تالیف ،اور دین کی نشرواشاعت میں خرچ کریں۔ملی ادارے انھیں کارخانوں میں نہیں، علم کی شمع روشن رکھنے میں مصروف رکھیںاور ان کی کفالت کچھ اس انداز سے کریں کہ سخاوت کو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔‘‘( دینی مدارس میں صنعت و حرفت کی تعلیم ،بحوالہ ’حیات ولی‘ شاہ عمران حسن ، دہلی،ص، 123-24)
اس اعادے کی ضرورت نہیں کہ مولانا محمد ولی رحمانی کی شخصیت کی متعدد جہات ہیں اور ہر جہات اپنے طور پر فہم و ذکاوت، علم وادب،سیادت و سیاست،حوصلہ و بے باکی، تحریک و تصنیف،تلقین وتدریس ،رشد و ہدایت اور حکمت و دانائی کے اوصاف سے ثروت مند ہیں۔ ذاتی طورپر مجھے اُن کی شاگردی اور سرپرستی کی سعادت حاصل رہی ہے، ان کی بے پناہ شفقت و محبت سے ہمکنار ہوا ہوں، ان سے بہت کچھ سیکھنے ،سمجھنے اور جاننے کے مواقع ملے ہیں اورابوجان کی وجہ سے تقریباً گھریلو تعلقات رہے ہیں۔ سو،ممکن نہیں کہ ایک صحبت میں اُن کے متعلق ایک موضوع سے زیادہ باتیں لکھی جا سکیں،کہی جا سکیں۔ موضوع، وقت اور صفحات کی پابندی اور موقعے کی نزاکت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ حدود توڑے نہ جائیں۔ مگر’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘۔
Abu Bakar Abbad
(M)9810532735
bakarabbad@yahoo.co.in
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…