Urdu News

محاسبۂ نفس مع حقیقتِ مراقبہ

مجموعۂ تقاریر حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہٗ العالی مہتمم دارالعلوم دیوبند

مجموعۂ تقاریر حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہٗ العالی مہتمم دارالعلوم دیوبند

مرتّب: مولانا صہیب اختر قاسمی کوپا گنجی

تعارف نگار: ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند

ایک دن عصر بعد حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہٗ العالی مہتمم دارالعلوم دیوبند کی اصلاحی مجلس میں تھا کہ حضرت نے چائے کی ضیافت کے بعد ایک کتابچہ عنایت فرمایا؛ اس وقت اس کی اہمیت کا اندازہ نہ ہوا، جب گھر آ کر دیکھا تو چند اصلاحی و تربیتی عناوین پر آٹھ تقریروں کا مجموعہ تھا۔

 اس میں مراقبہ، محاسبہ، مشورہ، حلال کی اہمیت، دل کی صفائی اور دین پر استقامت جیسے اہم موضوعات پر بڑی پُر مغز باتیں ملیں، پڑھتا گیا اور متأثر ہوتا گیا، ’’بہ قامت کہتر و بہ قیمت بہتر‘‘ کا مصداق پایا؛ خوبصورت پیرایۂ بیان میں معنویت سے لبریز ہے، تقریر کیا ہے؟ بس کوئی حدیث شریف پیش فرمائی اور شروع ہوگئے ’’از دل خیز بردل ریز‘‘ کے انداز میں بہت مختصر سا بیان فرماکر خاموش ہوگئے۔

 دیکھیے! ’’اسقامت‘‘ کو سمجھا رہے ہیں: ’’جو دعویٰ زبان سے کیا جائے دل کے اندر اس کا یقین ہو اور عمل بھی اسی کے مطابق کیا جائے‘‘ (ص:۵۵) اس پر مضمون کو پھیلایا اور جاحظؔ کے لباس میں نظر آنے لگے اور چند پہلوئوں کو سمجھاتے ہوئے اس پر بات ختم کردی کہ ’’استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے‘‘۔

قاری متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، کہیں منقول دلیلیں ہیں تو کہیں معقول، اکابر و اسلاف کے مزاج و مذاق سے استیناس؛ ’’بیانیہ اسلوب‘‘ میں ان سب کو نبھانا بڑی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔

آئیے! ’’مراقبۂ موت‘‘ کو پڑھیے! یہاں آنکھ بند ہے، خیالوں کی دنیا میں گم ہیں، ملک الموت کے آنے کے بعد سے قبر میں فرشتوں کے سوال وجواب تک کو پڑھیے؛ ’’منظرنگاری‘‘ کا لطف آئے گا، پھر دنیا کے امتحان سے آخرت کے امتحان کو محسوس انداز میں سمجھارہے ہیں، رونگٹے کھڑے ہونے لگے، معرفت کے چند واقعات بھی متأثر کیے بغیر نہیں رہے۔ (ص:۴۲،۴۳)

’’دل کی صفائی‘‘ پر ایک حدیث شریف پڑھی کہ اگر دل کو صاف رکھ کر صبح وشام گزار سکتے ہو تو گزار لو! یہ میری سنت ہے اور یہی جنت کا باعث بھی، مختصر سی تشریح قلب و روح کو گرما کر رکھ دیتی ہے، ’’حلال رزق‘‘ کو بیان کرتے ہوئے ’’تطفیف‘‘ (ناپ تول میں کمی) کے عموم کو بڑے اچھے پیرائے میں سمجھادیا ہے۔

چند بیانات ’’آن لائن‘‘ ہیں، ان میں جن لوگوں کو خطاب ہے وہ سُوت کاتنے کے فن سے اچھی طرح واقف ہیں، انھیں استقامت کو اس طرح سمجھایا کہ ’’سوت کاتنے کی ’’کتنی ‘‘کی طرح سیدھے ہوجائو!‘‘ (ص:۵۴) یہ پیشہ وارانہ ماحول کی تعبیر بھی مقتضائے حال کے مطابق بڑی عمدہ ہے اور ’’كَلِّمُوا النَّاسَ عَلیٰ قَدْرِ عُقُوْلِهِمْ‘‘ کا مصداق بھی۔

اور کیوں نہ ہو؟ موصوف تو پيدائشي واعظ ہیں، زبان و قلم دونوں کی نوک سے بے تکلف موتیاں بکھیرتے ہیں؛ موصوف کے والد محترمؒ نے خواب دیکھا کہ بابو ’’ابوالقاسم‘‘ میری گود میں ہیں، ان کی زبان کا اگلہ حصہ کٹ کر زمین پر گرا اور چھلملاتے ہوئے ایک بِل میں گُھسا اور گم ہو گیا،

خواب کے بڑے مُعَبِّر ڈاکٹر عبد الواسع صاحبؒ کے پاس گئے، انہوں نے تعبیر دی کہ بچہ واعظ ہوگا اور اس کی بات دلوں میں جا گزیں ہوگی، وہ بات ’’قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید‘‘ کا مصداق بنی، آج ہر ایک اس کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔

کیا اچھا ہوتا کہ حضرت کی ہر مجلس، ہر تقریر اور ہر ارشاد کو قلم بند کیا جاتا اور وہ مرتّب ہوکر شائع ہوتے اور خلق خدا اِس خوانِ یغما سے سیر ہوتی

و باللہ التوفیق

Recommended