Urdu News

ایک ملک ایک قانون : پروفیسر مظہر آصف

ایک ملک ایک قانون : پروفیسر مظہر آصف

ایک ملک ایک قانون

مختلف بیرونی ثقافتی اور مذہبی یلغار کی تکلیفوں کا سامنا کرنے کے باوجود بھی ہندوستان نے اپنی ہزار سالہ تاریخ، ثقافت، اخلاقیات، روایات، فکر وافکار اور علم کی شمع کو نامساعد حالات میں بھیکامیابی کے ساتھ جلایے رکھاہے، کیونکہ اس کی ثقافت ہمہ گیر اور اخلاقیات  عالم گیرہے۔ ہندوستان کے نظریہ کی بنیاد وسودھیوا کٹمبکم پر مبنی ہے۔

سرو بھونتو سکھین: سرو سنتو نیرمایا،

سرو بھدرانی پشینتو ما کاشچد دکھ بھگبھاویت۔

یہ صرف ایک منتر نہیں ہے بلکہ ہم اس پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور حقیقت میں اس پر عمل پیرا ہیں۔ شاید یہی وجہ رہی جس نے اقبال کو یہ لکھنے پرمجبور کیا:

یونان و مصر و روما، سب مٹ گئے جہاں سے

اب تک مگر ہے باقی، نام و نشان ہمارا

کچھ بات ہے کی ہستی، مٹتی نہیں ہماری

صدیوں رہا ہے دشمن، دور زماں ہمارا

انہی خوبیوں کی وجہ سے آج ہم پوریدنیا میں بے مثال اور قابل احترام ہیں۔ جہاں تمام ممالک اور مذاہب اپنے آپ کو برتر اور دوسروں کو کمتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہیں ہندوستان نے چھٹی صدی قبل مسیح میں سب کا بھلا ہو ،سب خوشی سے رہیں کا نعره بلند کیا۔ اور پہلی بار اس خیال کو جنم دیا کہ جس طرح ہم اچھے ہیں، اسی طرح آپ لوگ بھی اچھے ہیں۔ 195 ممالک میں ہندوستان واحد ملک ہے جہاں تقریباً ہر مذہب کے ماننے والے ہی نہیں بلکہ اس کے ذیلی مذاہب کے ماننے والے بھی مکمل مذہبی اور سماجی آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ جس مذہب کو کسی بھی ملک نے جگہ نہیں دیا، اس کو بھی ہندوستان نے  عزت کے ساتھ پھلنے پھولنے کا یکساں موقع فراہم کیا ہے۔ ہم اس لیے سیکولر نہیں ہیں کہ ہمارا آئین سیکولر ہے، بلکہ ہمارا سناتنی نظریہ نہ صرف ہمیں انسانوں کا احترام کرنے کا درس دیتا ہے بلکہ ہمیں اس زمین پر خدا کی تخلیق کردہ تمام مخلوقات سے پیار کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ تمام مذاہب اور فرقوں کا احترام ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ اور یہ تمام خوبیاں ہندوستان کے آئین میں اچھی طرح جھلکتی ہیں۔یہ تصور کہ ہم کئی سے ایک ہوئے ہیں نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ گمراہ کن بھی ہے۔ ہم ایک سے کئی ہو گئے ہیں۔ جس طرح ایک درخت میں اس کی شاخیں ہوتی ہیں، اس کے پتے ہوتے ہیں، ٹہنیاں ہوتی ہیں، پھل اور پھول ہوتے ہیں، اسی طرح ہندوستان میں رہنے والے تمام سناتنی تھے، سب سناتنی ہیں اور انشاء اللہ سناتنی ہی رہیں گے۔ ہاں ان کے مذہبی عقائد میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ عبادت اور طریقہ عبادت مختلف ہو سکتے ہیں۔ کوئی سناتنی مسلمان ہو سکتا ہے، کوئی سناتنی عیسائی ہو سکتا ہے، کوئی سناتنی سکھ ہو سکتا ہے اور کوئی سناتنی یہودی ہو سکتا ہے۔ اس کی آزادی اور ضمانت ہمارے ملک کے آئین نے دی ہے۔ لیکن ووٹ کی سیاست کرنے والوں نے اس امت مسلمہ کو مذہب کے جال میں اس طرح پھنسا دیا ہے کہ ہم اپنی جڑوں، اپنی تاریخ، اپنی روایات، اپنی اقدار اور اپنے رسم و رواج سے دور ہوتے چلے گئے۔ بدقسمتی سے یہ صورتحال صرف ہندوستان میں ہی نظر آتی ہے۔ ایرانی، انڈونیشیائی، ملیشیائی اور عرب، اسلام کے پیروکار ہونے کے باوجود، اپنی قبل از اسلام کی تاریخ، روایت اور ثقافت کو نہیں بھولے بلکہ اس پر بہت فخر کرتے ہیں۔ غالباً ہم نئے نئے اسلام لائے تھے اور یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ہم عربوں اور ایرانیوں سے بہتر مسلمان ہیں، اس لیے ہم اپنی تہذیب اور تمدّن سے الگ ہوتے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم فرقہ پرستی کا شکار ہیں۔ چونکہ ہم کم تعلیم یافتہ ہیں، اس لئے آسانی سے گمراہ ہو رہے ہیں۔ ہم مسلمان اور مومن میں فرق نہیں جانتے۔ شریعت کا علم نہیں۔ ہم نے قرآن شریف یا تو بالکل نہیں پڑھا۔ پڑھا ہے تو سمجھا نہیں۔ اور اگر سمجھاہے تو اس پر عمل نہیں کیا۔ حقوق العباد اور حقوق اللہ کا فلسفہ معلوم نہیں ہے۔ اس لیے آسانی سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ یونیفارم سول کوڈ کے تناظر میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کو یہ کہہ کر گمراہ کیا جا رہا ہے کہ کامن سیول کوڈ ان کی مذہبی سرگرمیوں میں زبردست تبدیلیاں لائے گا۔ اس سے ان کے مذہبی طریقوں جیسے نماز اور روزہ میں کچھ تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ اسلام کے پانچ ستونوں میں داخل ہو کر ہندو قانون متعارف کرائے گا جو یقیناً بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ عام شہری قانون کسی بھی مذہبی رسومات کی مذہبی سرگرمیوں میں کبھی مداخلت نہیں کرے گا۔ اس کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 ہمیں دیتے ہیں۔ یہ قانون صرف شادی، طلاق، گود لینے اور وراثت سے متعلق ہے۔ میں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر عام شہری قانون کی پرزور حمایت کرتا ہوں:

  • شریعت قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس سے بنتی ہے۔ جن قانونی دفعات کا قرآن شریف میں ذکر نہیں ہے وہ حدیث سے بیان کیا گیے ہیں۔ اگر احادیث میں کوئی شق مذکور نہ ہو تو اس کا فیصلہ علماء کرام کے درمیان وسیع مشاورت کے بعد کیا جاتا ہے۔ اگر اسلامی اسکالرز کسی اجماع پر پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ قرآن و حدیث کے بعض الفاظ یا تحریریں اس کا مطلب ہوسکتی ہیں۔ یہ اجماع کا نتیجہ ہے کہ آج اسلامی فقہ میں 5 نظریات ، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور جعفری کا ارتقا ہوا ہے، اور ان کے درمیان نکاح، طلاق، نفقہ، وراثت اور گود لینے کے بارے میں بہت سے اختلاف ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مسلمان نشہ کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو حنفی مسلک کے مطابق یہ طلاق ہو گی لیکن دوسرے مسالک اسے طلاق نہیں سمجھتے۔ ایک بیوی جو حنفی مذہب کی پیروکار ہو اگر اس کا شوہر غیر معینہ مدت کے لیے لاپتہ (مفقود) ہو تو اسے اس وقت تک انتظار کرنا ہوگا جب اس کی عمر کے لوگ فوت ہو جائیں یعنی اس کی عمر 90 سال کے قریب ہوجائے۔ البتہ شافعی، مالکی، حنبلی مسالک کے مطابق ایسی بیوی کو صرف 4 سال انتظار کرنا پڑے گا۔ یکساں سول قانون کے نفاذ کے بعد حنفی-مالکی-حنبلی-شافعی مسالک کے درمیان اختلافات ختم ہو جائیں گے۔
  • یہ قانون تمام شہریوں کو قانون کے ایک دھاگے میں پیرونے کا کام کرے گا۔
  • ووٹ بینک کی سیاست کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

اس سے خواتین کو مساوی حقوق ملیں گے اور ان کی حالت بھی بہتر ہو گی۔

  • جس طرح جرائم کے تمام دفعات تمام شہریوں پر یکساں لاگو ہوتے ہیں، اسی طرح سول دفعات بھی سبھی پر یکساں لاگو ہوں گے، جس کی وجہ سے امتیازی سلوک ختم ہو جائے گا۔
  • اسلامی قانون کے مطابق انسانوں پر دو طرح کے حقوق ہیں۔ پہلا حق خدا کا ہے جیسے اس پر ایمان لانا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ اس کے بھیجے ہوئے تمام رسولوں پر ایمان لانا اور اس کے احکام پر عمل کرنا۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ پر خالص نیت کے ساتھ سختی سے عمل کرنا۔ انحقوق کو حقوق اللہ کہتے ہیں۔ دوسرا حق ایک انسان کا دوسرے انسانوں پر ہے جسے حقوق العباد کہتے ہیں۔ سورہ 4 آیت 36 میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریبی پڑوسیوں، دور کے پڑوسیوں، اپنے ساتھیوں، مسافروں اور پاس والوں اور ان لوگوں کے ساتھ، جنکے پاستمہارا دائیں ہاتھ ہو بھلائی کرو۔بے شک اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو غرور و تکبر کرتے ہیں۔” (4:36) اس کے علاوہ انسانوں سے ہمدردی، جانوروں کو نقصان نہ پہنچانا، اجتماع کے آداب، گفتگو کے آداب، ملاقات کے آداب وغیرہ حقوق العباد میں شامل ہیں۔ اسلام میں حقوق العباد کو حقوق اللہ سے افضل سمجھا جاتا ہے۔ میری واضح رائے ہے کہ یکساں سول کوڈ شریعت کے خلاف نہیں ہے بلکہ شریعت سے ہم آہنگ ہے۔ اس لیے اس کا کھلے ذہن اور دل سے استقبال کیا جانا چاہیے۔
  • جب کسی ملک کا ایک جھنڈا، ایک آدھار کارڈ، ایک راشن کارڈ، ایک ٹیکسٹ بک، ایک مستقل اکاؤنٹ نمبر، ایک فوجداری قانون ہو سکتا ہے تو پھر یکساں سول کوڈ کیوں نہیں؟

مشورہ:

یکساں سول کوڈ کا مسودہ تیار کرنے کے لیے تمام مذاہب کے فقہی اور قانونی ماہرین پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جانے چاہیے۔

  • آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کو کامن سول کوڈ کا مسودہ تیار کرتے وقت ذہن میں رکھنا چاہیے۔
  • کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ تمام شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ لانے کا یہ بہترین وقت ہے۔
  • آرٹیکل 14 کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پورے ملک میں سازگار ماحول پیدا کیا جانا چاہیے۔
  • کامن سول کوڈ میں مذاہب اور کمیونٹی کے بہترین، سائنسی اور بہترین پرسنل لاء کو شامل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جانی چاہیے۔

مظہر آصف

پروفیسر اور سابق ڈین

اسکول آف لینگویج،لٹریچراینڈکلچراسٹڈیز

جواہر لال نہرو یونیورسٹی ۔نئی دہلی

ممبر NEP ڈرافٹنگ کمیٹی

9891508383

Recommended