اردو کے لیے خدمت بے لوث کا جذبہ
سب میں نہیں آتا ہے تو دو چار میں آئے
مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ضلع ادب گوشہ کھنڈوا کے ذریعے “سلسلہ اور تلاشِ جوہر ” کے تحت مظفر حنفی اور قاضی حسن رضا کی یاد میں شعری و ادبی نشست کا انعقاد 9 جولائی ، 2023 کو دوپہر 3 بجے جواہر مڈل اسکول، کھنڈوا میں ضلع کوآرڈینیٹر سفیان قاضی کے تعاون سے کیا گیا۔
اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دنیائے ادب میں کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے جب کوئی ادیب عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کرلیتا ہے تو اس کے بعد مقامی سطح پر اس کے اپنے شہر یا قصبے میں اس کی ادبی خدمات کے تئیں بیداری پیدا ہوتی ہے. ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔
کھنڈوا میں جن دو شخصیات کی یاد میں پروگرام منعقد ہورہا ہے وہ ایسے ہی نام ہیں. خاص طور سے مظفر حنفی کا نام عالمی ادب کے منظر نامے میں ناقابل فراموش ہے۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی پورے مدھیہ پردیش کے اپنے ادبی سفر میں سلسلہ کے ذریعے ایسی ہی عظیم ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
کھنڈوا ضلع کے کوآرڈینیٹر سفیان قاضی نے بتایا کہ منعقدہ ادبی و شعری نشست دو اجلاس پر مبنی رہی. پہلے اجلاس میں دوپہر 3 بجے تلاش جوہر کا انعقاد کیا گیا جس میں ضلع کے نئے تخلیق کاروں نے فی البدیہہ مقابلے میں حصہ لیا۔
اس مقابلے میں حکم صاحبان کے طور پر کھرگون کے سینئر شاعر راز ساغری اور برہانپور کے مشہور شاعر ریاست علی ریاست موجود رہے جنہوں نے نئے تخلیق کاروں کو اشعار کہنے کے لیے دو طرحی مصرعے دیے جو درج ذیل ہیں :
۔تیر تو آپ نے بھی مارا تھا (مظفر حنفی)
۔مناسب نہیں آسرا مانگنا (قاضی حسن رضا)
مندرجہ بالا مصرعوں پر نئے تخلیق کاروں کے ذریعے کہی گئی غزلوں اور ان کی پیشکش کی بنیاد پر حکم صاحبان کے متفقہ فیصلے سے اکبر تاج نے اول، سہیل شاہ نے دوم اور شفیق صادق نے سوم مقام حاصل کیا۔تینوں فاتحین نے جو اشعار کہے وہ درج ذیل ہیں ۔۔۔
کیوں اندھیروں سے خوف میں کھاتا
نور آنکھوں میں جب تمھارا تھا
اکبر تاج
ہم کو معلوم تھا وہ آئے گا
ہم نے یونہی نہیں پکارا تھا
سہیل شاہ
مناسب نہیں آسرا مانگنا
مجھ کو سب مل گیا اور کیا مانگنا
شفیق صادق
دوسرے اجلاس میں شام 5 بجے سلسلہ کے تحت شعری و ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت کھرگون کے استاد شاعر راز شاغری نے کی۔پروگرام میں مہمانان ذی وقار کے طور پر کھنڈوہ کے سینیئر ادیب گووند شرما اور مشہور فنکار شرد جین موجود رہے۔ نشست کی شروعات میں کھنڈوا کے ادبا اے قمر، ڈاکٹر ناظمہ اور برہانپور کے مشہور شاعر و ادیب شعور آشنا نے مشہور شعرا مظفر حنفی اور قاضی حسن رضا کے فن و شخصیت پرگفتگو کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔
اے قمر نے معروف شاعر اور ادیب مظفر حنفی کے فن و شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مظفر حنفی کی شخصیت عالمگیر شہرت کی حامل ہے، متعدد معتبر و مستند دانشوروں اور ادیبوں نے ان کے فن پر لکھا ہے. ان شخصیت اور ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی ہوچکی ہے۔
ان کا شمار اردو کے ایسے ممتاز ترین شعرا میں ہوتا ہے اور یہ ہند و پاک کے ایسے منفرد شاعر ہیں جو اپنے لہجے سے بآسانی پہچانے جا سکتے ہیں۔ ادب کے اہم ناقدین نے انھیں “صاحب طرز شاعر” تسلیم کیا ہے. انھوں نے نہ صرف یہ کہ شاعری میں طبع آزمائی کی بلکہ اردو ادب کی مختلف اصناف میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے ۔
ان کی 100 سے زائد کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آ چکی ہیں اور ہندوستان کی کئی اردو اکادمیوں اور دیگر اداروں اور ادبی تنظیموں نے ان کی مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں اعزازات سے نوازا ہے۔
شعور آشنا نے قاضی حسن رضا کی شخصیت اور ادبی خدمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قاضی حسن رضا کا ادبی سفر اور علمی خدمات کا سلسلہ تقریباً چار دہائیوں پر محیط ہے۔
انھوں نے اردو زبان و ادب اور شعر و سخن کی اپنے خون جگر سے نہ صرف آبیاری کی بلکہ حصول علم اور فروغ تعلیم کے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جو ناقابل فراموش ہیں۔ قاضی حسن رضا کی مجموعی خدمات کے اعتراف میں کئی ادبی و سماجی تنظیموں نے اعزازات سے نوازا۔
شعری نشست میں جو اشعار پسند کیے گئے وہ درج ذیل ہیں۔۔۔
کالے پیسوں سے بنا کر اجلا گھر
ہم نے اس پہ فضل ربی لکھ دیا
راز ساغری
پھل مقصد تعلیم کا بازار میں آئے
جو بات کتابوں میں ہے کردار میں آئے
اردو کے لیے خدمت بے لوث کا جذبہ
سب میں نہیں آتا ہے تو دو چار میں آئے
ریاست علی ریاست
پہلے ہوتے تھے خون کے رشتے
اب تو رشتوں کا خون ہوتا ہے
سفیان قاضی
چاند کی آبرو زمین سے ہے
چاند پر چاندنی نہیں ہوتی
ظہور شاہد
پیٹ پہ رکھ کر ہاتھ کہا اک بچے نے
بھوک کو میری غائب کردے جادوگر
گووند گیتے
پھول تیرا بدن جلاتے ہیں
مجھ کو کانٹوں پہ نیند آتی ہے
اشفاق مضطر
آپ کی بے رخی اک ادا ہوگئی
زندگی میرے حق میں سزا ہوگئی
جاوید آسی
ماں کی آغوش میں جو دن گزرے
مثل باغِ ارم سمجھتے ہیں
فاروق شیخ
آئینہ دیکھ کر ہر کوئی سنور جاتا ہے
اپنے کردار سے کوئی سنور کر دیکھے
چاند خاں چاند
جس کے گلے حرام کا لقمہ اتر گیا
یہ جان لو کہ اس کی دعا سے اثر گیا
ناصر حسین
سلسلہ ادبی و شعری نشست کی نظامت کے فرائض شعور آشنا نے انجام دیے۔
پروگرام کے آخر میں ضلع کوآرڈینیٹر سفیان قاضی نے تمام مہمانوں، تخلیق کاروں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…