ایک ملک ایک قانون
مختلف بیرونی ثقافتی اور مذہبی یلغار کی تکلیفوں کا سامنا کرنے کے باوجود بھی ہندوستان نے اپنی ہزار سالہ تاریخ، ثقافت، اخلاقیات، روایات، فکر وافکار اور علم کی شمع کو نامساعد حالات میں بھیکامیابی کے ساتھ جلایے رکھاہے، کیونکہ اس کی ثقافت ہمہ گیر اور اخلاقیات عالم گیرہے۔ ہندوستان کے نظریہ کی بنیاد وسودھیوا کٹمبکم پر مبنی ہے۔
سرو بھونتو سکھین: سرو سنتو نیرمایا،
سرو بھدرانی پشینتو ما کاشچد دکھ بھگبھاویت۔
یہ صرف ایک منتر نہیں ہے بلکہ ہم اس پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور حقیقت میں اس پر عمل پیرا ہیں۔ شاید یہی وجہ رہی جس نے اقبال کو یہ لکھنے پرمجبور کیا:
یونان و مصر و روما، سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی، نام و نشان ہمارا
کچھ بات ہے کی ہستی، مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن، دور زماں ہمارا
انہی خوبیوں کی وجہ سے آج ہم پوریدنیا میں بے مثال اور قابل احترام ہیں۔ جہاں تمام ممالک اور مذاہب اپنے آپ کو برتر اور دوسروں کو کمتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہیں ہندوستان نے چھٹی صدی قبل مسیح میں سب کا بھلا ہو ،سب خوشی سے رہیں کا نعره بلند کیا۔ اور پہلی بار اس خیال کو جنم دیا کہ جس طرح ہم اچھے ہیں، اسی طرح آپ لوگ بھی اچھے ہیں۔ 195 ممالک میں ہندوستان واحد ملک ہے جہاں تقریباً ہر مذہب کے ماننے والے ہی نہیں بلکہ اس کے ذیلی مذاہب کے ماننے والے بھی مکمل مذہبی اور سماجی آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ جس مذہب کو کسی بھی ملک نے جگہ نہیں دیا، اس کو بھی ہندوستان نے عزت کے ساتھ پھلنے پھولنے کا یکساں موقع فراہم کیا ہے۔ ہم اس لیے سیکولر نہیں ہیں کہ ہمارا آئین سیکولر ہے، بلکہ ہمارا سناتنی نظریہ نہ صرف ہمیں انسانوں کا احترام کرنے کا درس دیتا ہے بلکہ ہمیں اس زمین پر خدا کی تخلیق کردہ تمام مخلوقات سے پیار کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ تمام مذاہب اور فرقوں کا احترام ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ اور یہ تمام خوبیاں ہندوستان کے آئین میں اچھی طرح جھلکتی ہیں۔یہ تصور کہ ہم کئی سے ایک ہوئے ہیں نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ گمراہ کن بھی ہے۔ ہم ایک سے کئی ہو گئے ہیں۔ جس طرح ایک درخت میں اس کی شاخیں ہوتی ہیں، اس کے پتے ہوتے ہیں، ٹہنیاں ہوتی ہیں، پھل اور پھول ہوتے ہیں، اسی طرح ہندوستان میں رہنے والے تمام سناتنی تھے، سب سناتنی ہیں اور انشاء اللہ سناتنی ہی رہیں گے۔ ہاں ان کے مذہبی عقائد میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ عبادت اور طریقہ عبادت مختلف ہو سکتے ہیں۔ کوئی سناتنی مسلمان ہو سکتا ہے، کوئی سناتنی عیسائی ہو سکتا ہے، کوئی سناتنی سکھ ہو سکتا ہے اور کوئی سناتنی یہودی ہو سکتا ہے۔ اس کی آزادی اور ضمانت ہمارے ملک کے آئین نے دی ہے۔ لیکن ووٹ کی سیاست کرنے والوں نے اس امت مسلمہ کو مذہب کے جال میں اس طرح پھنسا دیا ہے کہ ہم اپنی جڑوں، اپنی تاریخ، اپنی روایات، اپنی اقدار اور اپنے رسم و رواج سے دور ہوتے چلے گئے۔ بدقسمتی سے یہ صورتحال صرف ہندوستان میں ہی نظر آتی ہے۔ ایرانی، انڈونیشیائی، ملیشیائی اور عرب، اسلام کے پیروکار ہونے کے باوجود، اپنی قبل از اسلام کی تاریخ، روایت اور ثقافت کو نہیں بھولے بلکہ اس پر بہت فخر کرتے ہیں۔ غالباً ہم نئے نئے اسلام لائے تھے اور یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ہم عربوں اور ایرانیوں سے بہتر مسلمان ہیں، اس لیے ہم اپنی تہذیب اور تمدّن سے الگ ہوتے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم فرقہ پرستی کا شکار ہیں۔ چونکہ ہم کم تعلیم یافتہ ہیں، اس لئے آسانی سے گمراہ ہو رہے ہیں۔ ہم مسلمان اور مومن میں فرق نہیں جانتے۔ شریعت کا علم نہیں۔ ہم نے قرآن شریف یا تو بالکل نہیں پڑھا۔ پڑھا ہے تو سمجھا نہیں۔ اور اگر سمجھاہے تو اس پر عمل نہیں کیا۔ حقوق العباد اور حقوق اللہ کا فلسفہ معلوم نہیں ہے۔ اس لیے آسانی سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ یونیفارم سول کوڈ کے تناظر میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کو یہ کہہ کر گمراہ کیا جا رہا ہے کہ کامن سیول کوڈ ان کی مذہبی سرگرمیوں میں زبردست تبدیلیاں لائے گا۔ اس سے ان کے مذہبی طریقوں جیسے نماز اور روزہ میں کچھ تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ اسلام کے پانچ ستونوں میں داخل ہو کر ہندو قانون متعارف کرائے گا جو یقیناً بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ عام شہری قانون کسی بھی مذہبی رسومات کی مذہبی سرگرمیوں میں کبھی مداخلت نہیں کرے گا۔ اس کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 ہمیں دیتے ہیں۔ یہ قانون صرف شادی، طلاق، گود لینے اور وراثت سے متعلق ہے۔ میں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر عام شہری قانون کی پرزور حمایت کرتا ہوں:
اس سے خواتین کو مساوی حقوق ملیں گے اور ان کی حالت بھی بہتر ہو گی۔
مشورہ:
یکساں سول کوڈ کا مسودہ تیار کرنے کے لیے تمام مذاہب کے فقہی اور قانونی ماہرین پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جانے چاہیے۔
مظہر آصف
پروفیسر اور سابق ڈین
اسکول آف لینگویج،لٹریچراینڈکلچراسٹڈیز
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ۔نئی دہلی
ممبر NEP ڈرافٹنگ کمیٹی
9891508383
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…