فکر و نظر

ریاست مغربی بنگال کی طرف سے اعلامیہ، بنگلہ زبان پر معیاری سطح کا عبور ہونا ریاستی پبلِک کمیشن ملازمتی امیدواروں کے لیے لازمی

مضمون نگار: اسماعیل یمین سید، اسلامی اسکالر و استاذ حدیث و فقی اسلامی، لندن برطانیہ

بصد افسوس یہ کہنا پڑتا ہے کہ حکومتِ ریاستِ مغربی بنگال کے اقدام بنگلہ زبان ریاستی سرکاری کمیشن کی سِوِل سروِس کے امیدواروں کے لیے لازمی قرار دینے کے حوالے سے جو تشویشناک حالت مغربی بنگال کے اردو داں طبقے والوں کو درپیش ہے یہ کوئی عجوبہ نہیں خاص کر جب کہ بھارت کے کئی ریاستوں میں بھی ان جیسے اقدام لئے جارئے رہے ہیں یا بروئے کار ہو چکے ہیں، خاص کر بھارت کے جنوبی علاقوں میں۔

 ہمیں اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے تھا کم از کم چار پانچ سال پہلے جب صوبائی قوم پرستی (پرووِنشیل نیشنیلزم/provincialism) و وفاقی وطن پرستی (union patriotism) اور ان دونوں کے باہمی کشمکش بشمول سہ زبانی مسئلہ (ہندی، انگریزی اور تیسری صوبائی زبان) کی ہوائیں چلنے شروع ہو گئی تھیں اور دیگر صوبے اس کے جوابی رد عمل میں اپنے مقامی صوبائی قوم پرستانہ تجاویز عمل در آمد کرنا شروع کردئے۔ بات یہ ہے کہ ہندوستان کے مختلف غیر اردو/غیر ہندی زبان بولی جانی والی ریاستوں میں اردو و ہندی گھرانے کے باشندے، بنسبت دوسرے زبانوں کے بولنے والوں کے، اپنے مقامی وطنِ اقامت صوبے کی سرکاری و اکثریتی زبان نہیں اپناتے (مثلاً بنگال، کرناٹک، تامل کیرالہ وغیرہ والے جب دوسرے ریاستوں میں سکونت اختیار کرلیتے ہیں تو جلد ہی وہ یا ان کے نئی نسل مقامی صوبائی سرکاری زبان سیکھ لیتے ہیں بلکہ ان کے اولاد و نئی نسل اکثریتی زبان اپنی مادری زبان کی طرح اپنا لیتے ہیں یا اپنے وطن اقامت کی اکثریت زبان پر عبور حاصل کرلیتے ہیں۔

 راقم نے خود ہندوستان کے معروف شہروں دلی، ممبئی و گجرات کے سورت، بروڈا میں مشاہدہ کی)۔ بلکہ حیرانگی کی بات ہے کہ ان غیر اردو/غیر ہندی صوبے کے سیکولر قانونی سہولیات سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں مقامی صوبائی یا ضلعی اردو لسانی بورڈ قائم کرنے میں اور بساوقات ریاستی سرکاری تعاون لینے میں اپنے مادری زبان کو فروغ دینے کی غرض سے (اور ہونا بھی چاہئے) اور اپنے ہی اردو زبان و آبائی ثقافت پر جم بیٹھے رہتے ہیں بغیر کوئی اہمیت دینے کے اپنے مقامی ریاستی اکثریتی زبان یعنی وطن اقامت کی زبان اپنانے میں یا کم از کم ریاست کے اکثریتی زبان پر مطمئن بخش دسترس و عبور حاصل کرنے میں بحیثیت مقامی شہری ہونے کے (یہ تو مستحسن بات ہے بلکہ ہونی بھی چاہیے کہ اپنے مستقبل مہاجر نژاد نسلوں کیلئے اپنے آبائی سنہرا اردو ورثہ و تہذیب کے فروغ دینے میں اردو بورڈ قائم کریں لیکن یہ اردو لسانی سرگرمیاں غیر اردو اراضی میں اپنے صوبۂ وطن اقامت کے اکثریتی/سُدیشی لسان کو اپنانے کے متوازی جد جہد ہونی چاہئے)۔ کچھ سال پہلے مغربی بنگال کے مقامی بنگالی مسلم برادران بنگال کے آنلائن ”حالاتِ بنگال“ (Halaat-e-Bengal) نامی مسلم میڈیا پر اعتراض اٹھائے تھے کہ یہ آنلائن مسلم اکثریت میڈیا بنگال پر توجہ دیتے ہیں صرف اردو زبان میں اور اور کوئی متوازی توجہ مبذول نہیں کرتے بنگلہ زبان میں خبروں کی اشاعت کے لیے جب کہ بنگال کے بنگالی مسلم اکثریت کو اردو پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی۔

علاوہ ازیں، دینی مزاج کے اعتبار سے بھی مقامی اکثریتی سرکاری زبان کو سیکھنا اشد ضروری ہے۔ بہت ہی تأسف کی بات ہے کہ یہ اردو لسانی برادری جب غیر اردو غیر ہندی ریاستوں میں جا کر سکونت اختیار کرتے ہیں تو وہاں کے سدیشی/مقامی اکژیت آبادی کے ساتھ انضمام و اختلاط کرنے کی کوشش نہیں کرتے اپنے مقامی ریاست کے لسانِ اکثریت سیکھ کر، جسے نتیجتًا اپنے اور غیر اردو اکثریت کے مابین ایک مزید حائل دیوار سی کھڑی ہوجاتی ہے۔ یہ مسئلہ زیادہ تر ہندوستان کے ساتھ خاص ہے۔ بیرون ریاستوں میں ایسا نہیں ہے مثلاً برطانیہ، امریکہ کینیڈا، جنوبی افریقہ (South Africa)، ترکی و دیگر یورپ و افریقی ممالک میں جہاں اردو نژاد نئی نسلوں کیلئے مقامی اکثریتی زبان اپنے مادری زبان (یا مادری زبان کی طرح) بن جاتی ہے لیکن متوازی کوششیں رہتیں ہیں اپنے آبائی تہذیب و اردو زبان کے فروغ دینے و ساتھ ارتباط رکھنے میں مثلاً برصغیر ہند و پاک و بنگلہ دیش و عرب ترکی نژاد اطفال کے لیے دینی مکاتب و ہفتہ وار اسلامی/دیسی ثقافتی اسکولوں میں یا اپنے قائم کردہ نجی و سرکاری اسلولوں میں دسویں و بارہویں جماعت تک اسکول بورڈ کے امتحانات میں اردو و بنگلہ (یا اپنے آبائی وطن کے حساب سے دیگر مادری زبان مثلًا گجراتی، پنجابی، تامل، ترکی، پشتو، فارسی، عربی وغیرہ)، بحیثیتِ مادری زبان کے آپشنز (heritage language option) لینے کا بندوبست کی جاتی ہے سہ لسانی امتحانات کے فارمولہ (انگریزی/مقامی سرکاری زبان + متقارب بر اعظم یا بین الاقوامی کی زبانوں میں سے ایک زبان + مادری ورثہ زبان) کے ماتحت۔

ماہرین بشریات (اینتھروپولوجِسٹ/anthropologists) و مؤرخین کے یہاں یہ مشترکہ موقف ہے اقوام و ریاست کے اقلیت و اکثریت کے حوالے سے کہ اگر مہاجرین/مہاجر نژاد اقلیت والے اکثریت کے اقدارِ تحمل و وسعتِ قلبی و ظرف عالی کے فائدہ اٹھاتے ہوئے میزبان اکثریتی قوم کے زبان و تہذیب (اپنے مذہب کے حدود میں رہ کر) کو، بغرض سماجی باہمی اختلاط و انضمام، اپنانے کیلئے کوئی جد جہد مبذول نہ کریں اور اپنے و اکثریتی قوم کے مابین اختلاط صرف کاروبار یا پیشے یا سرکاری امور تک محدود رکھیں اور اپنے بقیہ ذاتی و سماجی زندگی اپنے ہی ہم لسان برادران کے ساتھ اپنے ہی برادری سماجی در و دیواروں میں پردہ پوش ہو کر بیٹھ جائیں تو زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ اکثریت کی میزبانی جلد ہی حیرانگی و نوآبادیاتی مخالف تنفر جیسا ماحول میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ویسے تو بنگلہ زبان پنجابی گجراتی سندھی وغیرہ زبانوں کی طرح شمالی ہند نژاد ہندی اردو پنجابی داں شہریوں کیلئے سیکھنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا مشکل ہے جنوبی بھارتی (ساوتھ انڈین) والوں کے لیے۔ اگر ہمسایہ مملکت بنگلہ دیش میں اگر دیکھا جائیں جہاں دار الحکومت ڈھاکہ میں کم و بیش 10 فیصد تک اردو داں آبادی ہے لیکن ان اردو داں اقلیت طبقے میں تقریبََا سب صرف دو لسانی (bilingual) اردو و بنگلہ سے متعارف نہیں ہیں بلکہ ان کے بنگلہ زبان پر علی وجہ الکمال عبور ہونا وہاں بنگالی نژاد اکثریت سے بھی کم نہیں ہیں۔

مذہبِ اسلام بلکہ اکثر ادیان و مذاہب (حتی کہ انگریزی نوآبادیاتی حکمرانی بذریعہ فرقہ واریت سے ماقبل ہندو دھرم بھی) متنوع اقوام اپنے اپنے وطن اقامت کی اکثریتی قوم کے ساتھ بقائے باہم و ہم آہنگی میں زندگی بسر کرنے میں مثبت کردار ادا کئے۔ اگر ماضی قریب کی تاریخ کی طرف نگاہیں اٹھائیں تو یہ تلخ حقیقت بہ آسانی سے ملے گی کہ جس مذہبی یا لسانی اقلیت برادری سکان اپنے مد مقابل اکثریت میزبان قوم کے ساتھ لسانی ثقافتی سماجی اعتبار سے (اپنے مذہب کے حدود میں رہ کر) برسر عام اختلاط نہیں کرتے بلکہ اکثر بیشتر اپنے لسانی قومی برادری کے خیالی بلبلے میں وقتی خیالی طمانینت کا شکار ہو کر بیٹھ جاتے ہیں تو ان کا مآلاً انجام نسبتاً مثبت نہیں ہو پاتے۔ اگر ماضی تاریخ کی طرف نظر اٹھائیں، تو یہودی کے بعض اقوام (سب نہیں/سوائے مستثنیات کے) عربستان و افریقہ میں جاکر صدیوں تک بسیں (یا پہلے ہی سے عربستان و افریقہ و وسط ایشیا کے خطوں میں موجود تھے لیکن بعد میں بکثرت اختلاط یہودی مہاجرین سرمایہ کار تاجر قوم کے ساتھ بتدریج مذہب یہودیت اپنائیں اسلام آنے سے پہلے) لیکن اکثریت کے رائج الوقت سرکاری و علمی زبان (مثلًا وقت کے سرکاری عربی یا فارسی زبان حسبِ صوبے و آبادی کے) کے رسم الخط و مکمل زبان نہیں اپنائیں، تو انہیں بعد میں جا کر مصائب و مشاکل جھیلنے پڑیں۔ ان مسبوق الذکر خطوں میں برطانوری و فرانسیسی سامراجی و نو آبادیاتی حکومتیں جب قابض ہوئیں تو وہ مقبوضہ خطوں کے اُن یہودی برادری کو باقی عرب و مسلم اکثریت سے بآسانی سے الگر کرکے اپنے استعماری منصوبے میں اعتماد میں لے سکیں جو یہودہی برادری اپنے صدیوں سے چلتی ہوئی آبائی عبرانی رسم الخط پر مُصر ہو کر اپنے روز مرہ کلام و خطوط میں اُس وقت کے رائج عربی زبان کو عربی عبرانی زبانوں کے آمیز نیا روپ موسوم بہ ”یہودی عربی“ (Judeo-Arabic) بخشیں و بکثرت اسے استعمال کرنے لگی مقامی اکثریتی زبان عربی سے کنارہ کشی اختیار کرکے (بایں ہمہ کہ یہودی اقلیت بحیثیت محفوظ ذمی ہونے کے ناتے اپنے تمام مذہبی امور بہ شمول ذاتی و دینی ثقافتی امور میں عبرانی زبان کا استعمال کرنے کا پورا حقوق حاصل تھے) اور ان عرب و باقی سلطنت عثمانیہ خطوں کے مذکورہ یہودی برادری پر برطانوی و دیگر یورپی سامراجی حکام بآسانی سے عرب اکثریتی قوم اور عرب یہودی برادری کے مابین تقسیم و حکومت کے حائلانہ دیوار کھڑے کردئے اور تفریق و اشتعال انگیز عداوت و فساد برپا کردئے اور باقی تاریخ شاہد ہے۔ اس کے برخلاف، مسلم عرب اکثریت کے اراضی میں یورپی و برطانوی سامراجی طاقتیں عرب عیسائی اقلیت برادری کے ساتھ وہی تقسیم و حکومت (حکومت بذریعہ فرقہ واریت/divide and rule) کے تفریقی فرقہ وارانہ دیوار قائم نہ کر سکیں جس طریقے سے مسبوق الذکر عرب یہود برادری و باقی عرب قوم کے مابین تفریقی خانہ جنگی کی فرقہ وارانہ دیواریں کھڑا کیں، اور مآلاً وہ عرب عیسائی قوم باوجود مسلم اکثریت نہ ہونے کے، مجموعی طور پر بحیثیت ہم لسان و ہم رسم الخط کنندگان ہونے کے، وہ سب عرب اکثریت میں شامل تھی۔

مع ہذا اگر ہم اپنے ہی مسلمانانِ ہند کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو نو دس صدی کی تواریخ میں یہ بکثرت ملیں گے کہ عرب، فارس/ایران و وسط ایشیا سے مسلمان اقوام جو ہندوستان کی طرف ہجرت کر کے ہندوستان کو اپنے وطن اقامت بنائیں، وہ صرف اپنے عربی یا فارسی یا ترکی زبانیں بغرض روز مرہ استعمال و سماجی ثقافتی اختلاط ہی پر منحصر نہ رہیں بلکہ بتدریج (بساوقات سرعت کے ساتھ نصف و پونے تین صدی کے اندر اندر) ایک نیا مقامی روپ اختیار کرلی تھیں جس میں مقامی اکثریت زبان کو اپنا کر اپنے مقامی اکثریتی لسان سنسکرت کھریبولی و پراکرت مع فارسی عربی کے آمیز ایک نئی ہندوستانی ثقافتی و لسانی تہذیب کو تشکیل دی۔ نا ہی وہ اپنے چغتائی/ترکی/فارسی/عربی پر مصر رہیں۔ یہی دستور قرون وسطی کے شاہی بنگلہ عرف سلطنتِ بنگال کے دور میں رہا جہاں بنگال کے مسلم سلاطین اپنے سرکاری زبان بتدریج بنگلہ عرف سلطانی بنگلہ زبان اپنائے یا فروغ دئے جس میں بجائے صرف اپنے آبائی فارسی اپنانے کے یا فارسی پر انحصار کرنے کے، مقامی شہریو کی بنگلہ زبان کو رائج الوقت کے مہاجر فاتحین کے فارسی عربی ثقافت و مقامی بنگالیوں کے بنگلہ سنسکرت ثقافتوں کے آمیز ایک جدید ادبی و تخلیقی فنکاری کا نیا روپ بخشے جو مستقبل اٹھارویں صدی کے اواخر سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک بنگالی ثقافتی نشأة ثانیہ (بنگالی رینائسانز/Bengali Renaissance) کی بنیاد سمجھی جاسکتی ہے۔ مزید برآں، میزبان اکثریتی قوم کی زبان اپنانے و روز مرہ استعمال کرنے سے اپنے متوازی آبائی ثقافتی اردو زبان کو، بوجہ تنوعِ اقدار و تعددِ لسان کے، مزید تخلیقیت و افزودگی حاصل ہوں گیں جیسے کہ قرون وسطی کے بعد سے عربی فارسی انگریزی جرمن و فرانسیسی و اطالوی (اور ایک حد تک ترکی بھی) زبانوں کو باہمی اختلاط و متوازی استعمالوں سے غیر معمولی تخلیقیت و فنکاریت حاصل ہوئیں۔ بالآخر ہندوستانی اردو گھرانے شہریو جو غیر اراضئ اردو (یعنی دلی، یوپی، اتراکھند، بہار، ایم پی، احمدآباد، حیدرآباد دکن و اورنگ آباد کے علاقے و ریاستیں جو اردو کے اراضی سمجھی جاتی ہیں، ان سے باہر دوسرے غیر اردو ہندی ریاستوں میں بحیثیت لسانی اقلیت ہونے کے زندگی بسر کرتے ہیں، وہ اپنے آپ کو اکیلا پن یا اجنبیت پن محسوس نہ کریں۔

ان کے لیے ہمسایہ ممالک پاکستان و بنگلہ دیش کی مثالیں موجود ہیں، بنگلہ دیش کو (بصد احترام) فی الحال ہم نظر انداز کریں، وہاں کے سیاسی و لسانی مسائل کچھ الگ نوعیت کے ہیں، اگر پاکستان کے مہاجروں کی اول شہر کراچی کو دیکھیں جو پاک ریاست سندھ میں واقع ہے، وہاں کے اکثر اردو داں مہاجر طبقے بشمول بہاری برادران، کو یہی مشاکل یا ان جیسے مماثل حالات کا سامنا کرنے پڑے اور وہاں ریاستِ سندھ کی حکومت و ایسمبلی ممبران بھی بعد میں بمشکل سے (لیکن بڑی حد تک)کامیابی کے ساتھ ریاستی زبان سندھی کو بحیثیت ریاستی سرکاری زبان، سرکاری و عدالتی معاملوں میں اجرا کیں یا نافذ کرنے میں کوشاں ہیں اور ریاست سندھ کے پبلِک کمیشن سُپیرِیر سروِس سرکاری ملازمت کے امیدواروں کے لیے سندھی زبان پر معیاری سطح کے دسترس حاصل کرنا لازمی قراردی گئی بحکم حکومتِ سندھ (باوجود سندھ کے سب سے بڑا شہر کراچی کے اکثریتی آبادی ہونے کا اعزاز ، مملکت عرب امارات کے دبئی و ابو ظبی شہوں کی طرح، اب اردو داں مہاجر قوم کو حاصل ہے باوجود اصل سندھی آبادی نہ ہونے کے۔

موضوعِ تحریر ہذا کی طرف اولاً توجہ مبذول کرانے کے لیے جناب مسعود جاوید Masud Javed صاحب، مقیم مغربی بنگال بھارت کا بیحد شکریہ۔

قلم نگار کو ٹویٹر پر زیر توجہ رکھ سکتے ہیں: IsmailYSyed@

Dr. R. Misbahi

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago