محمدوہاج الدین اختر
رام نومی، مریادہ پروشوتم شری رام کے یوم ولادت کی مناسبت سے برادران وطن کااہم ترین تہواربن گیاہے ، گذشتہ کچھ سالوں پہلے تک استثناوں سے قطع نظر یہ تہوار بہت ہی سادہ اور بالکل بے ضررطریقے سے معمولی مذہبی رسوم کی ادائیگی کے ساتھ کچھ اس طرح انجام پاتاتھاکہ دیگر مذہبی طبقات کے لوگوں کواس تہوارکی آمدورفت کاکچھ پتہ نہیں چل پاتاتھا۔
مگررفتہ رفتہ پھرایساکیاہواکہ مذہبی اعتبار سے ہندوؤں کے مرجع عقیدت شری رام کے یوم ولادت سے منسوب رام نومی ،تہواروں میں سب سے نمایاں ،جارح ،ہنگامہ خیز،اورمحشرانگیزہونے کے ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اعتبارسے انتہائی حساس ،اورنظم ونسق کے لیے ایک بڑے چیلنج کی صورت اختیارکرگیا، اوراب یہ رام نومی ہندوستانی تہواروں کی کہکشاں میں محض ایک رسمی اور روایتی قسم کاتہوارنہیں رہ گیا ہے ،بلکہ ہتھیاربردارجلوس،اورشوبھایاتراکے توسط سے ہندوؤں کے شکتی پردرشن کابہترین موقع ،اورہندوتواکی بے لگام دہشت گردی کاکارگرپلیٹ فارم بن گیاہے۔
جس کی آمد کے قریب ہوتے ایام سے نہ صرف مسلمانوں میں خوف وسراسیمگی کی رو دوڑجاتی ہے ،بلکہ سرکاروں اوراس کے تابع فرمان انتظامیہ کی سانسیں بھی پھولنے لگتی ہیں ،شہری خطوں میں مسلمانوں کے اندر کسی انہونی کااندیشہ اس درجہ سرایت کرجاتا ہے کہ وہ اپنی جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے کافی فکرمند،اورحفظ ماتقدم کی تدابیر سوچنے لگتے ہیں،جلوس کے رہ گزرمیں آنے والی دوکانوں کے سامان کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ، توبہت سے لوگ عارضی نقل مکانی میں گوشہء عافیت دیکھتے ہیں ،مگرتمامتر احتیاطی تدابیر اور انتظامی جوکسی کے باوجود کسی نہ کسی مقام سےتباہی وتاراجی کی دلخراش خبریں موصول ہوہی جاتی ہیں ۔
کووڈپابندیوں سے قبل رام نومی میں خود ہمارے شہر اورنگ آباد میں خونی جلوس میں شامل فسادی ہجوم نے سینکڑوں مسلم دوکانوں کو ٹارگیٹ کرکے نذرآتش کردیاتھا ،اورمسلمانوں کواقتصادی طورپرنیم جان کرنے کی جوکوشش کی گئی تھی وہ آج بھی اہل شہر کے لیے ڈراؤنے خواب جیساہے ،ابھی تازہ ترین معاملے میں گزشتہ مہینے کے حالیہ رام نومی میں بھی بہارکے جن چنداضلاع سے ماحول کو بگاڑنے اورخراب کرنے کی جو خبریں موصول ہوئیں ،ان میں سب سے المناک اور اندوہناک حادثہ ہمارے وزیراعلی بہارکاآبائی ضلع ، نالندہ کے بہارشریف کا سانحہ تھا،جس میں وہاں کے مشہوراورعظیم وقدیم ادارہ مدرسہ عزیزیہ کومکمل طورپربربادکردیاگیا۔
اس حادثے میں صرف مدرسہ کا ڈھانچہ اوراس کی عمارت ہی خاکسترنہیں ہوئی ،بلکہ ستم پیشوں نے مدرسہ کی سوسالہ درخشاں تاریخ کوپھونک ڈالا،اطلاع کے مطابق مدرسہ کی درجنوں سے زائدالماریوں میں موجودمدرسہ کی اراضی ،اورمدرسین وملازمین کی ملازمت سے وابستہ انتہائی حساس نوعیت کے قیمتی اور دفتری دستاویزات جل گئے ،طلباوطالبات کی تعلیمی اسناداورمارکس شیٹ ،نیزمدرسہ کی مہتم بالشان لائبر یری کی ہزارہا نادرونایاب کتابیں ، اور قیمتی مخطوطات نسیا منسیاہوگئیں ،اتنے بڑے اورہمالیائی نقصان کی تلافی کس طرح ہوپاے گی یہ سوچ کرہی ہول آتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کسی مذہبی شخصیت کے یوم پیدائش کی ایک سادہ سی تقریب اتنی جارح، دہشت انگیز اورآفت بداماں کیونکر ہو گئی ؟ تواس سلسلے میں بعض سماجی مفکرین کاخیال یہ ہے کہ اس کے پس پردہ محرکات وعوامل میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہندوتوا کے تھنک ٹینک کی طرف سے تسلسل کے ساتھ مسلمانوں کے تئیں نفرت و حقارت پرمبنی نظریات کی جوتشہیراورآبیاری کی جارہی ہے ،اور اس جذبے کے تحت مسلمانوں کونقصان اوراذیت پہنچانے کے جو بہانے اور مواقع تلاش کئے جاتے ہیں ۔
رام نومی کے جلوس ،اورشوبھایاتراکی شکل میں وہ موقع ‘دریافت ‘ کرلیاگیاہے ، اور رام جی کے یوم ولادت کوموقع کے طور پراستعمال کرنے کی رہنمائی بھی خود مسلمانوں نے ہی کی ہے ،وہ اس طرح کہ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے نام پر ‘جلوس محمدی’کا بے فیض اور اشتعال انگیز ہنگامہ برپا کرکے برادران وطن کے اندر جارحانہ ردعمل کی نفسیات کو پروان چڑھایا ۔
جس کی قیادت بھی ” تتھا کتھت “پیشوایان دین ہی کرتے رہے ،جو اپنی ہواے نفسانی کی تسکین کی خاطر مذہب کی غلط اورمن چاہی تعبیر وتشریح کے ذریعے سادہ لوح عوام کو گمراہ ، اورمصائب کی بھٹیوں میں جھونکنے کاانتظام کرتے رہے ،چونکہ عام طورپرآشیانے عام لوگوں کے ہی لٹتے ہیں ۔
پیرطریقت کے لگژری حجرے پرکوئی خراش اورآنچ نہیں آتی ،اس لیے فراست اور عاقبت اندیشی سے عاری ان مذہبی گروگھنٹالوں نے اسلام کے دومسلمہ ومتفق علیہ عیدوں پرماوراے دین وشریعت بارہ وفات کو”عیدالاعیاد”کے طورمتعارف کراکرجشن وجلوس کے نام پرنمائش پسند نوجوانوں کوہرطرح کے طوفان بدتمیزی اورہڑبونگ کرنے کاخودساختہ “شرعی اجازت نامہ”دے دیا،جومخصوص رنگ و آہنگ والے پاکستانی پرچم نماجھنڈوں کے ساتھ مخلوط اور غیرمسلم آبادیوں میں گھس کرچڑانے والے اندازمیں بائیک لہراتے ہوے غیرمسلم نوجوانوں کواکساتے اوربھڑکاتے ہیں ،کہاجاتاہے کہ رام نومی کی موجودہ خونی شکل جلوس محمدی کے پلیٹ فارم سے کی جانے والی انہیں حرکتوں کاجارحانہ اور انتقامی ردعمل ہے ،جسے بصیرت ودوراندیشی سے عاری کچھ مذہبی رہنماؤں نے ایجادکیاتھا،اپنی بے مغز قیادت ،اور بے دماغ پیشوائی سے قوم وملت کو فتنوں اورآزمائشوں میں مبتلا کرنے والے ایسے ہی ‘رہنمایان دین ‘کے بارے میں مفکراسلام علامہ اقبال بجاکہہ گئے ہیں۔
نہ جانے کتنے سفینے ڈبو چکی اب تک
فقیہ وصوفی وملا کی ناخوش اندیشی