جماعت اسلامی ہند، ذاکر نگر کی جانب سے استقبال رمضان کا پروگرام منعقد
جماعت اسلامی ہند، ذاکر نگر کی جانب سے استقبال رمضان کے پروگرام کے موقع پر جامع مسجد ، ذاکر نگر میں خطاب کرتے ہوئے نوجوان مقرر، ڈاکٹر (بی ڈی ایس آخری سال)فواز جاوید نے اپنی باتوں اور اپنے اچھوتے انداز بیان سے سامعین کوگویا مسحور کر دیا۔ڈاکٹر فواز نے کہا کہ قرآن مجید میں رمضان کا لفظ صرف ایک بار آیا ہے اور وہ روزے کے تعلق سے نہیں بلکہ قرآن کے تعلق سے آیا ہے۔
انتہائی خوش الحانی کے ساتھ سورہ بقرہ کی آیت 185کی تلاوت کر انہوں نے بتایا کہ’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ، جو (قرآن) انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘ اس کے بعد اسی آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ حکم دیتا ہے کہ’’لہذا اب سے جو شخص اس مہینہ کو پائیوہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘اس آیت سے روزے کی اہمیت ذرا بھی کم نہیں ہوتی ، البتہ قرآن کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
اس سے پہلے کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر فواز نے کہا کہ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول بتایا گیا ہے۔اگر یہ حاصل نہیں ہوتا تو بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں اللہ کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے بندے کو بھوکا پیاسا رکھے۔
روزہ دراصل اپنے آپ پر قابو پانے کی ایک مہینہ کی ورک شاپ ہے۔ بھوکے پیاسے رہنے کا ایک مقصد یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہم محروم لوگوں کی بھوک پیاس کو محسوس کر سکیںاور ظاہر ہے کہ اس کے لئے کم کھانا مطلوب ہے صرف کھانے کا وقت بدل دینے سے یہ مقصد پورا نہیں ہوگا۔لہذا ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ رمضان کے مہینہ میں ہم اشیاء خورد ونوش پر کتنا خرچ کرتے ہیں۔ اگر یہ خرچ دیگر مہینوں کے مقابلے کم ہے تو بڑی اچھی بات ہے ، برابر ہے تو اصلاح کی ضرورت ہیاور اگر اللہ نہ کرے زیادہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید ہمارے سامنے ہے۔
اسی طرح سونے کا بھی معاملہ ہے۔ تقویٰ کی ٹریننگ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ نفس پر قابو پانے کے لئے اپنی نیندیں قربان کی جائیں ، تاکہ رمضان کے قیمتی لمحات میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور اللہ کے بندوں کی خدمت کا وقت ملے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ رمضان کے دنوں میں کتنا سوتے ہیں۔ اگر ہم دیگر مہینوں سے زیادہ سوتے ہیں تواس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں رمضان کی قدر و قیمت کا بالکل اندازہ نہیں۔
ہمیں اس کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ تقویٰ کی اس ورک شاپ سے ہم نے کتنا فائدہ اٹھایا۔ اسے جانچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ کسی بھی برائی کو کرنے سے پہلے ہمارے دل میں اللہ کا ڈر کتنا پیدا ہوتا ہے۔
اگر وہ ڈر رمضان کے بعد بڑھ جاتا ہے تو یہ قابل مباک باد ہےکیونکہ یہ تقویٰ کے فروغ کی علامت ہے، اور اگر اس کی کیفیت وہی ہے جو رمضان سے پہلے تھی تو یہ تشویش کی بات ہے۔
ہمیں اوپر بیان ہوئے تینوں سوالوں پر اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ تمام سامعین ہمہ تن گوش مقرر کی باتوں کو سنتے رہے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…