محمد زاہد حسین ندوی،جمشید پور
رکن آل انڈیا پیام انسانیت فورم
وطن عزیز کے حالات آئے دن فرقہ وارانہ ہوتے چلے جارہے ہیں اور طاغوتی طاقتوں( یہود و ھنود کے گٹھ جوڑ) کے ناپاک عزائم طشت ازبام ہوچکے ہیں، پھر بھی بہت سے ذہنوں میں ابھی بھی یہ بات آتی ہے کہ یہ کونسا نیا کام ہے؟اور سیاسی طور پر اس تحریک کا کیا فایده ہے؟ حالانکہ کتاب و سنت کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ پوری انسانیت کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا، برادران وطن کے ساتھ ﴿مُوالات یعنی دلی دوستی و رازداری کا نہیں بلکہ ﴿مَدارات} ظاہری اخلاق و رواداری کا برتاؤ کرنااسلام میں مطلوب ہے۔
نبی پاک صلى الله عليه وسلم نے مکی زندگی میں “حلف الفضول” کے معاہدہ میں کفار مکہ کے ساتھ شرکت فرمائی اور نبوت ملنے کے بعد بھی آپ صلى الله عليه وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اگر آج بھی اس طرح کے معاہدہ میں مجھے شرکت کی دعوت دی جائے تو میں ضرور شرکت کروں گا ۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں کے مشترک مسائل کو بنیاد بنا کر آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا انکے دکھ درد میں شریک ہونا یہ ایک بہت بڑا سماجی عمل ہے جس سے سماج میں امن اور بھائی چارہ کا ماحول قایم ہوتا ہے اور آپس کی نفرتیں ختم ہوتی ہیں اور غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ اور دعوتی حکمت عملی کو ہندوستان میں خاص طور پر اولیاکرام نے اپنایا جن میں سب سے نمایاں نام وکام سلطان الہند حضرت خواجہ سید محمد معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کاہے جنھوں نے اپنے وقت میں اسلام کی عدل و انصاف اور رحمدلی کی تعلیمات کو یہاں کی توحید نا آشنا آبادی کے سامنے اپنی دریادلی و کرم گستری کا عملی مظاہرہ کرکے اس طرح پیش کیا کہ نہ صرف یہاں کے سیاسی حالات پر اس کا گہرا اثر پڑا بلکہ ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں یہاں کےلوگ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
تقسیم کے بعد پیش آنے والے ملک کے فرقہ وارانہ فسادات اور روح فرسا واقعات نے بڑے بڑے قائدین اور لیڈران کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اس کا مداوی آخر کیسے اور کیونکر کیاجائے؟ بالآخر اللہ تعالیٰ نے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن (علی میاں) ندوی رحمتہ اللہ علیہ کےدل میں یہ بات ڈالی اور انھوں نے اللّہ کا نام لیکر اس تحریک کی داغ بیل ڈالی ، اور 1974 میں باقاعدہ الہ آباد سے اس کی شروعات کی ، اور اپنے چند مخلص و توفیق یافتہ رفقا کو ساتھ لیکر ملک کے اکثر بڑے شہروں کا دورہ فرمایا اور برادرانِ وطن کے ساتھ اہم ڈائیلاگس کئے جسکے بہت ہی مثبت نتائج برآمد ہوئے (وہ سارے خطابات “انسانیت کی مسیحائی “ور “تعمیر انسانیت” نامی کتاب میں جمع کرکے سید احمد شہید اکیڈمی سے شایع کردئے گئے ہیں اور ہندی وانگریزی میں پیام انسانیت کے جو لٹریچرس ہیں وہ انھیں کتابوں سے ماخوذ ہیں۔
1999 میں حضرت مولانا رح کی وفات کے بعد انکے بڑے پوتے،خلیفہ اور پیام انسانیت کے کام میں انکے معتمد علیہ مخدومی و مرشدی داعی اسلام حضرت مولانا سید عبد اللہ محمد الحسنی ندوی رحمتہ اللہ علیہ نے اس نازک ذمہ داری کو سنبھالا اور بحیثیت جنرل سکریٹری تحریک پیام انسانیت میں لٹریچر اور مشترک جلسوں کے ساتھ باقاعدہ چند عملی کاموں کا بھی اضافہ فرمایا جس کے نتیجے میں اللہ رب العزت نے تحریک کو مزید فروغ عطا فرمایا اور پھر 2013 میں انکی وفات کے بعد مخدومی و استاذی حضرت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی دامت برکاتہم نے اسے اور منظم فرمایا جسک ے نتیجے میں الحمدلله کام میں باقاعدگی آئی اور ملک کے طول و عرض میں اسکی شاخیں (یونٹس)قائم ہوئیں ۔اور بہت سی شاخیں مرکز سے ملنے والی ہدایات پر بڑی حد تک عمل پیرا ہیں اور بڑی قابل قدر کوششیں انجام دے رہی ہیں، جس میں مہاراشٹر کی اورنگ آباد یونٹ، خود لکھنؤ مرکز کی یونٹ، حیدرآباد آباد وجھانسی یونٹس وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔
تحریک کے مطالعہ کے لئے ان رسالوں کا مطالعہ از بس ضروری ہے 1:حضرت مولانا علی میاں ندوی رح سے ایک اہم انٹرویو 2:تحریک پیام انسانیت اہمیت، افادیت و ضرورت از مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی دامت برکاتہ۔علاوہ ازیں سوشل میڈیا سےبھی اس کا خاطر خواہ مواد حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
ضرورت ہے کہ وقت کی اس اہم ترین تحریک کو علی وجہ البصیرہ اور وسعت دی جائے اور اپنا کام سمجھ کر پورے خلوص اور قدرے جان ومال اور وقت کی قربانی دے کراسے اپنے اپنے علاقے میں شروع کردیا جائے ،حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی نوراللہ مرقدہ نے ایک مرتبہ رائے بریلی کے سالانہ اجتماع میں اپنے توجیہی خطاب میں یہ بات ارشاد فرمائ تھی، “کہ پیام انسانیت دراصل “پیام امن”ہے، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمتہ اللہ علیہ نے اس تحریک کا نام جو “پیام انسانیت”رکھا، یہ انکی دور اندیشی کی بات ہے، اس کام کے لئے اس سے بلیغ کوئ تعبیر نہیں ہوسکتی تھی، اس میں بڑی وسعت ہے”۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ میر کارواں حضرت مولانا سید بلال عبدالحئ حسنی دامت برکاتہم کی سربراہی میں اس تحریک کو تمام شرور و فتن سے محفوظ فرماکر انسانوں کی ہدایت اور فلاح و بہبود کا ذریعہ بنائے اور ہم کام کرنے والوں کو اخلاص و استقامت عطا فرمائے! آمین
نوٹ:-یہ مضمون پیام انسانیت کے تربیتی پروگرام منعقدہ 13مئ بروز سنیچر بمقام دارالعلوم اسلام نگر بنا پیڑھی، جاڑی رانچی ( شاخ دارالعلوم ندوۃ العلما،لکھنؤ )میں پڑھ کر سنایا گیا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…