Urdu News

کتب خانہ نہیں، فقط کھاناچاہئے قوم کو

جس انگریزی اخبار پہ یہ روٹی رکھی ہے، اس پہ غور کیجئے۔ آئی آئی ایم لکھا ہوا ہے۔ یہ قوم آئی آئی ایم پہ خمیری روٹی رکھ کے نہاری سے کھا لیتی ہے۔ قوم کو کتب خانہ نہیں فقط کھانا چاہئے۔

تحریر:ڈاکٹر شفیع ایوب

مسلم علاقوں میں کھانے کے ہوٹلوں کی بھرمار

دہلی کے مسلم علاقوں میں سب سے زیادہ کھانے کے ہوٹل نظر آئیں گے۔ پرانی دلی کے ترکمان گیٹ سے داخل ہوں تو حج منزل کے سامنے سے ہی کباب، قورمہ، بریانی کی خوشبو آپ کو اپنے حواس پر قابو نہ رکھنے دے گی۔ کلو نہاری والے کی دکان دیکھ لیجئے یا بھائی جان چکن کباب والے کی دکان، ایک بھیڑ نظر آئے گی دست سوال دراز کئے ہوئے۔ دریا گنج کی طرف سے کستوربا اسپتال ہوتے ہوئے جامع مسجد پہنچ جائیں۔ مٹیا محل اور اُردو بازار میں کھانے کے ہوٹلوں کی بھرمار۔ ایک کریم ہوٹل کا ہی ذکر کیا، جدھر نظر دوڑائیں مرغ و ماہی۔ جامع مسجد کے سامنے تاریخی اردو بازار میں آپ کو اُردو شاید کہیں نظر نہ آئے لیکن ہر طرف کباب، قورمہ، بریانی اور نہاری کے ساتھ خمیری روٹیوں کی خوشبو مل جائے گی۔

کتب خانہ نہیں، فقط کھاناچاہئے قوم کو

اچھا صاحب اب ذرا چاندنی چوک کی طرف سے یا کھاری باؤلی کی طرف سے داخل ہوں، بلی ماران کی گلی میں مُڑتے ہی، گلی قاسم جان کی طرف جاتے ہوئے پھر وہی کھانے کے ہوٹل، وہی چکن فرائی اور نہاری کی خوشبو۔ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلیں تو سامنے اجمیری گیٹ نظر آئے گا۔ اجمیری گیٹ سے اندر داخل ہوں، پھر وہی ہوٹلوں کا سلسلہ۔ یہ پورا فصیل بند شہر، اپنے دامن میں ہزاروں سال کی داستان سمیٹے ہوئے ہے۔ کیسے کیسے اہل کمال اس فصیل بند شہر کی رونق رہے ہیں۔ لیکن آج ہر طرف صرف ہوٹلوں کی بھرمار۔ جو چیز آپ کو تلاشنے پر بھی نہ ملے وہ ہے لائبریری۔ کھا نا اور کھانے کا ہوٹل ہر طرف ملے گا، لیکن کتب خانہ نہیں ملے گا۔ کبھی خود آزما کر دیکھ لیجئے۔

دلی کے مسلم اکثریتی علاقے اور ہوٹلوں کی بھرمار

دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں فصیل بند شہر کے علاوہ بستی حضرت نظام الدین، جامعہ نگر اوکھلا اور جمنا پار میں لکشمی نگر، سلیم پور، مصطفی آباد اور جعفرآباد وغیرہ گھنی مسلم آبادی والے علاقے ہیں۔ بستی حضرت نظام الدین اور نظام الدین ویسٹ میں مسلم آبادی ہے۔ یہ علاقہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں محبوب الہیٰ حضرت نظام الدین اولیہ کا مزار ہے۔ یہاں حضرت امیر خسرو اور غالب ؔ بھی مدفون ہیں۔  بنگلے والی مسجد ہے جو ہندوستان میں تبلیغی جماعت کا مرکز ہے۔  غالب کی یاد میں قائم مشہور ادارہ غالب اکیڈمی ہے۔ یہاں اپنے زمانے کا مقبول ترین اردو ہفتہ وار ”نئی دنیا“ کا دفتر ہے۔ یہاں مولانا وحید الدین خاں کی ادارت میں نکلنے والا منفرد ماہنامہ الرسالہ کا دفتر بھی ہے۔

ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ لیکن بستی حضرت نظام الدین کی ہر گلی میں آپ کو کھانے کے ہوٹل ملیں گے۔ صبح سے لیکر دیر رات تک۔

بھانت بھانت کے کھانے

بھناگوشت، اِشٹو، قورمہ، پایہ، نہاری، قیمہ، کلیجی، بھیجا فرائی، خمیری روٹی، شیرمال، پلاؤ، بریانی اور نہ جانے کیا کیا۔ کوئی ہوٹل آپ کو خالی بھی نہیں ملے گا۔ غالب اکیڈمی کی عمارت میں سیکنڈ فلور پر ایک قیمتی لائبریری بھی ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے کسی بھی وقت جا کے دیکھ لیجئے۔تین چار لوگوں سے زیادہ لائبریری میں مل جائیں تو اپنی قسمت پر ناز کیجئے۔ نظام الدین کے پورے علاقے میں یہ لائبریری ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سال بھر کسی موسم اور کسی مہینے میں آپ کو بھیڑ کی شکایت نہیں ہوگی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس قوم کو ذہنی غذا درکار نہیں ہے۔ یہ محض پیٹ کی بھوک مٹانے میں مصروف ہے۔

شاہین باغ کے کباب اور بریانی

مشہور تعلیمی درسگاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آس پاس کے علاقے کو اوکھلا اور جامعہ نگر کے نام سے جانتے ہیں۔ اس علاقے میں ذاکر نگر، نور نگر، ذاکر باغ، بٹلہ ہاؤس، جوگا بائی، غفار منزل، جوہری فارم، ابوالفضل اینکلیو اور شاہین باغ کے علاقے شامل ہیں۔ یہاں بھی بس ہر طرف کھانے کے ہوٹل۔ ہندوستان میں شاید ہی کوئی دوسرا علاقہ ہو جہاں اتنی بڑی تعداد میں پڑھے لکھے مسلمان آباد ہوں۔ مسلمانوں کے تمام مسلک کے لوگوں نے اس علاقے میں اپنے مرکزی دفاتر بھی کھول رکھے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سینٹرل لائبریری کو چھوڑ دیں کہ یہ طلبہ کے لئے مخصوص ہے تو بھی اس علاقے میں کچھ اور چھوٹی بڑی لائبریریاں موجود ہیں۔ لیکن جس وقت جی چاہے جاکے ان کتب خانوں کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

کھانے کے ہوٹلوں میں جو جم غفیر نظر آتا ہے اس کا ایک حصہ بھی کتب خانوں میں نظر نہیں آئے گا۔تو یہ پڑھے لکھے مسلمان بھی صرف پیٹ کی آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔

دیگر مسلم علاقوں کا حال بھی ویسا ہی ہے

دہلی کے دیگر مسلم اکثریتی علاقوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔ اور صرف دہلی ہی کیوں آپ ہندوستان کے کسی شہر کو دیکھ لیں مسلم محلوں میں ہوٹلوں اور چائے خانوں میں سب سے زیادہ رونق نظر آئے گی۔ جس شہر میں جائیں وہاں کے مسلم اکثریتی علاقے میں کھانے کے ہوٹلوں اور کتب خانوں کا تناسب دیکھ لیجئے۔ ہم کھا نے کے ہوٹلوں کے مخالف نہیں ہیں۔ کھانا بھی ہماری ضرورت ہے۔ لیکن کیا پیٹ کی آگ بجھانا ہی ہماری زندگی کا واحد مقصد ہے؟ کیا کتب خانوں سے ہماری قوم کا رشتہ ختم ہو چکا ہے؟  کتب خانوں کی ضرورت ختم ہو چکی ہے؟ کیا قورمہ بریانی کے ذائقے نے دہن کے ساتھ ساتھ ذہن پر بھی قبضہ کر لیا ہے؟

جسم تو بہت سنور چکے، اب روح کا سنگار

زیادہ تر شہروں میں مسلم علاقوں میں رات گیارہ بجے کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ پولس کا گشت ہو رہا اور کھانے کی دکانوں کو بند کرایا جا رہا ہے۔ اگر ان ہوٹلوں کو پولس والے زبردستی بند نہ کرائیں تو فجر کی اذان تک یہاں نہاری، پایہ قورمہ کی پیالیاں کھنکتی رہیں۔ کاش کچھ لوگ اس جانب متوجہ ہوں کہ قوم کو ذہنی غذا کی بھی بہت ضرورت ہے۔اپنے اپنے شہروں میں جائزہ لیجئے۔ پہلے سے موجود کتب خانوں کو آباد کیجئے۔ نئی نسل کو پابندی سے کتب خانوں میں بیٹھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ جس علاقے میں لائبریری موجود نہ ہو وہاں لائبریری قائم کریں۔ کیوں کہ جسم تو بہت سنور چکے، اب روح کا سنگار کیجئے۔

(کالم نگار ڈاکٹر شفیع ایوب،جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)

Recommended