محمدوہاج الدین اختر
دینی مدارس کے تعلیمی سال کااختتامی مہینہ چل رہاہے ، اس مناسبت سے مدارس کے سالانہ جلسہ ہاے عام کا موسم بہاربھی شباب پرہے ، یہ جلسے دراصل دینی مدارس کا رپورٹ کارڈ سمجھے جاتے ہیں ، جلسوں میں متعلقہ مدرسے کے فارغین کی دستاربندی بھی ہوتی ہے ، اورفارغین کی تعداد کے مطابق ارباب مدارس عوام الناس کے نزدیک اپنی حصولیابیوں کے حوالے سے عوامی راے عامہ کو ہموار کرنے اہل ثروت کے مالی تعاون کارخ اپنے مدرسے کی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مدارس کے توسط سے قوم کو دینی وقرآنی افرادکاسرمایہ فراہم ہوتاہے جو نہایت قابل قدرہے ،اور مدارس کاامت پراحسان عظیم بھی ،لہذا مدارس کی طرف سےفارغ التحصیل حفاظ وعلماکوپروقاراجلاس عام کے ذریعے بحوالۂ قوم کرنا قرین فہم مناسب عمل ہونے میں کسی کوکوئی اشکال نہیں نہیں ہوناچاہیے ،تاہم سرنامۂ مضمون کے حوالے سے اس وقت ہمارا رویے سخن دینی جلسوں کا موجودہ رائج انداز وطریق کار ہے ، ابتدائی سطح سے پہلے ہم جلسوں کے اشتہارات ہی کو لے لیں ،انتہائی زرق برق ،رنگ برنگے ،مختلف الالوان اور ملٹی کلر کے مرصع ومزین قسم کے اشتہار لوگوں کی نگاہیں چکاچوند کرتے ہیں ، اوراس خیرہ نگاہی میں بسااوقات بہت سوں کےلیے اشتہارکے مندرجات کامطالعہ دشوارہونے لگتاہے اورپھربالاے ستم یہ کہ اشتہارکے شوخ رنگوں میں مدعوئین مقررین ،علما وشعراکے اسمائےگرامی غیرضروری طورپر اتنے بھاری بھرکم اورلمبے چوڑے،بھانت بھانت کے القاب وآداب سے ایسےبوجھل ہوتے ہیں کہ اصل نام ہی کہیں گم معلوم ہونے لگتاہے ،اورالقاب کے ہجوم میں ایک کم پڑھے لکھے عام آدمی کےلیے اصل نام کی تمیزکرپانابھی مشکل ہونے لگتاہ۔
علاوہ ازیں بظل روحانی ،بفیض روحانی کے ساتھ ساتھ “زیرقیادت، زیرسیادت ، زیرعنایت ،زیرحمایت ،زیرولایت، زیرسخاوت ” جیسے مطلق خوشامدانہ وتملقانہ کالموں کی بہتات بھی کریلے پرایسانیم چڑھادیتی ہے کہ ایک مصروف آدمی اگرچاہے کہ فوری اورسرسری طورپراشتہارکے مشمولات کوذہن میں بسالے توشایداس کےلیے مشکل ہو، جلسوں کے نام اور عنوان پربھی اگرغورکریں توچندروایتی اورفرسودہ عنوانات کے علاوہ اکثر جلسوں کے عنوانات بے مغز مولویانہ لفاظیوں کے ذخیرے سے بہ تکلف برآمد کردہ معلوم ہوتے ہیں ،دینی جلسوں کے اشتہارات سے سادگی میں پرکاری کے ساتھ مقررین علما کے ناموں میں موزوں اور مناسب ترالقاب کے ساتھ نستعلیقیت مطلوب ہوتی ہے،نیزجلسے کاعنوان بامعنی اوربامقصدہوناچاہیے، جس کا فقدان نظرآتاہے،نیزیہ کہ یہ دینی جلسے بالعموم رات میں برپاکیے جاتے ہیں جویوں بھی خلاف فطرت محسوس ہوتے ہیں کہ خدانے رات کو آرام کا مسکن ،اوردن کوہرطرح کی عملی سرگرمیوں کا مخزن بنایاہے (وجعل اللیل لتسکنوافیہ والنہارمبصرا) مگرشایدمنتظمین اجلاس کے ذہنوں میں یہ مفروضہ بسا ہوتاہے کہ دن میں تو لوگوں کی ترجیحات کامحور ان کی کاروباری مصروفیات ہی ہوتی ہیں ، رات کو ہی لوگ سارے کاموں سے فارغ اوریکسو ہوکرجلسوں کو سننے اور شرکت پرآمادگی کے لیے بہترخیال کرتے ہیں ،مگرمیرے ناقص خیال میں یہ طرز فکراس لیے درست نہیں کہ لوگ دیررات تک جلسہ سن کرویسے بھی بے خوابی یاکم خوابی کی وجہ سےاگلے دن روزمرہ کے کاموں کےلیے بشاش اور تازہ دم نہیں رہ پاتے ، اورجو لوگ جلسوں کی نافعیت کے قائل ہیں ،اوران میں جذبہء طلب بھی ہے توان کے لیے دن میں بھی وقت فارغ کرلیناکوئی مشکل امرنہیں ہے ،نیزجلسوں کامزاج اوراندازوآہنگ بھی رات کے اوقات کے انتخاب کی قطعااجازت نہیں دیتا ، کیونکہ جلسوں کا مزاج(استثناوں کے ساتھ) عام طورپربڑاپرشوراورہنگامہ خیزی لیے ہوتاہے،لاوڈاسپیکر کےچونگے جلسہ گاہ سےکم ازکم نصف کیلومیٹر اورمنتظمین کے حسب ظرف کبھی کبھی ایک کیلومیٹرمزیددورتک ضرر رساں طورپرنصب کیے جاتے ہیں ، عشائیہ سے فارغ ہوکرعشاء کے بعد جب لوگوں کے آرام کا وقت شروع ہونے لگتاہے ،توجلسے کے نقیب محترم اسٹیج پرجلوہ بارہوکرمطلق لفاظیوں پرمبنی تمہیدطولانی کے ذریعے منتشرمجمع کومرتب کرنے کی سعیء محمود فرماتے ہوے کسی تالیء قرآن کی طویل تلاوت وقراءت سے جلسے کاآغاز فرماتے ہیں۔
اور اس کے بعدپھرشروع ہوتاہے نعت رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وسلم)کے نام پربلبلان خوشنوا،طیوران حرم، عندلیبان چمن اورطوطیٔ ہندقسم کے مداحان کرام اور شعرا عظام کی ترنم ریزیوں اورنغمہ سرائیوں کا اکتادینے والا ایک طویل اور لامتناہی سلسلہ جو (کچھ استثناوں کے ساتھ)بیشترجلسوں میں نصف شب تک بھی دراز ہوتاہے ، اورپھران شعراء اسلام کے اپنے مخصوص اندازواداہوتے ہیں جو عموما پیشہ ورانہ ہوتے ہیں ،اورشعراکی ان اداؤں پرنقیب اجلاس تڑکالگارہاہوتاہے ،جبریہ دادو تحسین وصول کی جاتی ہے، کہیں کہیں رقاصاؤں اورمغنیوں کی طرزپرنوٹوں کی بارشیں بھی ہوتی نظرآتی ہیں، یاکرائی جاتی ہیں ، بصورت دیگران شاعروں/متشاعروں کے نخرے بھی دیدنی ہوتے ہیں ، اسی دورانیے میں یکے بعد دیگرے علماء کرام ،خطیبان عظام ،اورپیران طریقت کاورودمسعودبھی اسٹیج پرہونے لگتاہے ،اورحداعتدال سے بڑھے ہوے مائیک کے اذیت ناک ساونڈپررات کے سناٹے اورسکون کوبرہم کرتے ہوے اہل اسٹیج بالخصوص ناظم اجلاس کی طرف سے جوش عقیدت اورفرط محبت میں احمقانہ چیخ پکار کے ساتھ بلند کیے جانے والے فلک شگاف استقبالیہ وغیراستقبالیہ نعرے آس پاس کی خوابیدہ آبادیوں پر بے خوابی اورشوروہنگامے کاعذاب مسلط کرنے لگتے ہیں۔
جس میں بڑی تعدادمیں غیرمسلم بھی ہوتے ہیں ،ضعیف اوربیمارحضرات بھی ،جن کو جلسے سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتاہے ، مگردین اورمذہب کے نام پربرپاکیے جانے والے جلسوں کی اس صورتحال سے خاصاکرب اور اضطراب کی حالت میں رات گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں ،اکثرمقرروں اورخطیبوں کااندازخطاب اورطرزتقریرکے ساتھ ان کاباڈی لینگویج بھی کچھ ایساناشائستہ ،اوربدنماہوتاہے،تقریریں غیرضروری کچھ اس طرح احمقانہ گھن گرج لیے ہوتی ہیں کہ’الاماں والحفیظ’ اوراس گھن گرج کے ساتھ تقریری اقتباسات،اورجملوں کی ادائیگی بھی غیر مطلوب طریقے سے اتنی سرعت وسلاست کے ساتھ ہوتی ہے کہ مقررکے تعلق سے اس کی سلاست بیانی اور طلاقت لسانی کاتاثرقائم ہونے کے بجاے مقرر کے ” رٹو “ہونے کاگمان گذرنے لگتاہے ،اوریہ محسوس ہوتاہے کہ موصوف نے سیرت رسالت کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل وخصائل اوراندازگفتگووطرزخطاب سے کوئی اثرقبول نہیں کیاہے ، بلکہ پڑھابھی نہیں ہے،دوران تقریر بھی کبھی اہل اسٹیج توکبھی سامعین کی طرف سے کھڑے ہوکرتوکبھی اچھل اچھل کر دونوں ہاتھوں کو فضامیں لہراتے ہوے بھانت بھانت کی آوازوں میں نعروں کی جھنکاریں ، پروقاردینی ومذہبی پروگرام کے بجاے کسی شیطانی عمل گاہ کا تصوراورمنظرپیش کررہی ہوتی ہیں ،دلچسپ بات یہ ہے علماے کرام بھی اب ان بے فیض افعال ومناظرسے کسی طرح کی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ،اس سے جلسوں اور شخصیات کے پست ہوتے معیارکااندازہ لگایا جاسکتاہے۔
آج کے مروجہ جلسوں کے مقررین کے خطابات میں پرمغز ،عالمانہ،اصلاحی، اورکارآمد موادکادائرہ سکڑنے لگاہے ، غیرمفیدلفاظیوں،اورغیرنافع موادکاعنصر غالب نظرآنے لگاہے بلکہ بہت سے جلسےتو مسلکی آتش فشانیوں،اورشعلہ نوائیوں کے توسط سے فتنہ وفساداورتفریق بین المسلمین کا”سنسد”نظرآتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اس دینی ومذہبی استحصالی کے سبب اب سنجیدہ ،باشعوراورتعلیم یافتہ افرادمیں جلسوں سے بیزاری محسوس کی جانے لگی ہے ۔
لہذا ضروری ہے کہ دینی نسبت اورتقدس کاخیال کرتے ہوے جلسوں کومعیارووقارسے ہم آہنگ کرتے ہوے خوشگواراورموثرتبدیلیوں کوراہ دی جاے، اور “ہلہ گلہ ڈاٹ کام”بننےسے روکا جاے،اس سے قبل کہ ہمارے جلسوں کے تعلق سے عمومی بے دلی وبیزاری نظرآنے لگے ،عوام الناس کا اعتماد شکستہ ہو ،جلسوں کو حشو وزوائد سے پاک کرکے متانت وسنجیدگی کاپیرہن بخشاجاے ،تاکہ ہمارے جلسے بامعنی ، بامقصد،اورنتیجہ خیزہو سکیں۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…