Urdu News

اُردو کے قاتل کون؟ کہیں آپ تو نہیں؟

اردو کے قاتل کون؟ تصویر میں جامعہ عثمانیہ، حیدر آبادکی شاندار عمارت

اُردو کے قاتل کون؟ کہیں آپ تو نہیں؟

اردوکا مسئلہ اور پروفیسر حضرات

اردو زبان کے مسائل بے شمار ہیں اور ان مسائل پہ آنسو بہانے والے بھی بے شمار۔اردو کے قاتل کون؟ اس پہ بھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اردو مسائل پہ جذباتی تقریر کرنے والے بھی بہت ہیں اور اعداد و شمار پیش کر کے اردو کی زمینی حقیقت پیش کرنے والے بھی کم نہیں۔ اردو کے لئے وہ لوگ بھی فکر مند ہیں جو ملک کی مختلف دانش گاہوں میں اردو کے پروفیسر ہیں، لاکھوں روپے ہر ماہ انکے بینک اکاونٹ میں آ جاتا ہے۔ یہ پروفیسر حضرات منشی پریم چند، مولوی عبدالحق یا مولانا حسرت موہانی کی طرح بدحالی کی زندگی نہیں گزارتے۔ مہنگی کاریں ان کے پاس ہیں۔ ماشا اللہ بیشتر کے پاس شہر کے اچھے علاقوں میں ذاتی مکان بھی ہے۔ سال دو سال میں یورپ اور امریکا بھی گھوم آتے ہیں۔ کچھ ماریسش اور دوحہ قطر بھی۔

اردو نہیں پڑھاتے

اس طرزِ زندگی سے کسی کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے؟ ہمیں بھی کوئی پریشانی نہیں۔ ہاں یہ حضرات دو کام ضرور کرتے ہیں۔ اردو کا کوئی اخبار یا رسالہ خرید کر نہیں پڑھتے۔ اور عموماً اپنے بچّوں کو اردو نہیں پڑھاتے۔ (اردو میڈیئم سے پڑھانے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا) ہاں یہ بھی سچ ہے کہ اردو کے تمام پروفیسر حضرات یہی نہیں کرتے۔ میں اردو کے ایسے پروفیسروں کو جانتا ہوں جنھوں نے اپنی اولادوں کو اردو کی تعلیم دی ہے اور اردو کے اخبارات خرید کر پڑھتے ہیں، اردو رسائل کے سالانہ خریدار ہیں۔ لیکن یقین کیجیے ایسے حضرات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ میں ایسے پروفیسروں کی خدمت میں سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔

سچے عاشقان اردو

اردو کے لئے وہ لوگ بھی فکر مند ہیں جو اردو کی روٹی نہیں کھاتے۔ تاجر پیشہ لوگ، سرکاری ملازم، کوئی چُوڑی والا، کوئی جھاڑو والا، کوئی باٹلی والا، عربی مدرسوں کے طالب علم، وغیرہ وغیرہ۔ یہ معاملہ اقتصادی نہیں ہے۔  عشق کا معاملہ ہے۔ یہ اہلِ خرد نہیں سمجھتے۔  اہلِ جنوں کا شیوہ ہے۔ کاروبارِ الفت میں سود کیا زیاں کیا تم نہ جان پاؤ گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس کوئی واضح تصوّر نہیں ہے اردو کی ترویج و ترقی کے لئے۔

یہ لوگ منظم بھی نہیں ہیں۔ ان میں کوئی قائد بھی نہیں ہے۔ ان کے پاس لا محدود وسائل بھی نہیں ہیں۔ وزراء اور حکمرانوں سے ان کے مراسم بھی نہیں ہیں۔ بس لے دے کر ایک جذبہ ہے اردو کے لئے کچھ کرنے کا۔ اس قبیل کے لوگ ہندستان کے مختلف حصّوں میں اپنے اپنے طور پر سرگرم ہیں۔ کچھ اور سمجھ میں نہ آئے تو سال میں ایک مرتبہ آپس میں چندہ جمع کر کے ایک آل انڈیا مشاعرہ منعقد کرتے ہیں۔ ان حضرات کو بھی نہیں معلوم کہ اردو کے قاتل کون؟

اردو کے لئے عملی کام

جب تک ہمارے پاس قابل اعتبار اعداد و شمار نہیں ہونگے ہم جذباتی تقریر تو کر سکتے ہیں لیکن اردو کی لڑائی کو کسی بہتر نتیجہ تک شاید نہ لے جا سکیں۔ آج ہمیں معلوم ہونا چاہئے کی اتر پردیش میں کتنے اردو میڈیم اسکول ہیں؟ کتنے بچے اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ کالجوں اور یونیورسٹوں میں اردو درس و تدریس کی کیا صورت حال ہے؟

جس گورکھپور یونی ورسٹی میں پروفیسر محمود الٰہی، پروفیسر احمر لاری، ڈاکٹر اختر بستوی اور ڈاکٹر افغان اللہ خان بیک وقت درس و تدریس سے وابستہ رہے ہوں وہاں چار سو سے زائد طلبہ و طالبات کو ایک استاد ڈاکٹر رضی الرحمن برسوں تن تنہا سنبھالتے رہے۔ بڑی مشکل سے ابھی ایک سال پہلے وہاں دو اسسٹنٹ پروفیسر کا تقرر ہوا۔ حیدرآباد کی قدیم دانش گاہ جامعہ عثمانیہ کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ آج عثمانیہ یونیورسٹی میں اردو کی حالت دیکھ کر رونا آئے گا۔

اسکولی تعلیم کی طرف

مثال کے طور پہ صرف دو یونیورسٹیوں کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ ورنہ مجموعی صورت حال اس سے بھی بدتر ہے۔ جب ہم یونیورسٹی میں اردو تعلیم کی بات کرتے ہیں تو بعض سمجھدار لوگ فوراً بول اٹھتے ہیں کہ صاحب جڑوں میں پانی دیجئے، ورنہ درخت کتنے دن شاداب رہیں گے؟ انکا اشارہ اسکولی تعلیم کی طرف ہوتا ہے۔ یقیناً اسکولوں میں اردو تعلیم کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن اس کا مطلب قطعی یہ نہیں ہے کہ دانش گاہوں میں اردو کی تدریس بیکار یا غیر ضروری ہے۔ ہمیں پرائمری سے لیکر پی ایچ ڈی تک اردو تعلیم کی بات کرنی ہے۔

(تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب )
اردو کے قاتل کون؟ تصویر میں جامعہ عثمانیہ، حیدر آبادکی شاندار عمارت

Recommended