سائنس

ڈاکٹر ریتو کریدھل شریواستو: راکٹ وومن آف انڈیا

مصنفہ: انکیتا بنگول

مترجم : ڈاکٹر مہوش نور

ڈاکٹر ریتو کریدھل شریواستو کا شادی اور بچے کے بعد بھی نہیں رکا اڑان بھرنے کا حوصلہ، ڈاکٹر ریتو کریدھل منگلیان مشن کا اہم ستون تھیں۔جب بھی آپ نے ڈاکٹر ریتو کریدھل کے بارے میں سنا ہوگا،تو  آپ کو منگلیان ضرور یاد آیا ہوگا۔ لیکن آج ہم ایک ماں کی بات کر رہے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں ان کا منگلیان سے زچگی تک کا سفر۔

ڈاکٹر ریتو کریدھل، نام جانا پہچانا لگتا ہے نا؟ ارے یہ وہی ہیں  جنہیں  دنیا ‘راکٹ وومن آف انڈیا’ کے نام سے جانتی ہے۔ اگر آپ اب بھی نہیں سمجھے ہیں تو آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ منگلیان کی کامیابی کے پیچھے ڈاکٹر ریتو کا ہاتھ تھا۔ہندوستان کے مریخ مشن کی ڈپٹی آپریشنز ڈائریکٹر رہ چکیں ریتو نے ہر عورت کو متاثر کیا ہے۔ اسرو کی سائنسدان ہونے کے علاوہ،ریتو ایک ماں بھی ہیں، جو ہر عورت اور ماں کے لیے ایک بڑی تحریک ہیں۔

لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ بتائیے کہ آپ کے مطابق ایک اچھی ماں ہونے  کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ بھی اسی عقیدے پر یقین رکھتے ہیں، جو ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں نے پیدا کر رکھا ہے کہ ایک ماں کو کامل ہونا چاہیے۔ لیکن ایک کامل ماں کون ہے؟

اس کا جواب ہم اسی مضمون میں دیں گے۔ریتو کریدھل کی کہانی ایک ایسی ماں کی کہانی ہے جو تما م پریشانیوں اور  معاشرے کی تیکھی نظروں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔

ہمارا معاشرہ ایسی خواتین کو ایک اچھی ماں  نہیں مانتا جو اپنے بچوں کے لیے قربانیاں نہیں دیتیں۔ لیکن  ہم جانتے ہیں کہ  ایک عورت اچھی ماں ہونے کی تعریف کو اپنے انداز میں لکھنا جانتی ہے اور اسے بخوبی  لکھ بھی رہی ہے۔

یہاں ہم بات کر رہے ہیں ڈاکٹر ریتو کریدھل کی ۔ ڈاکٹر ریتو بچپن سے ہی آسمان میں اڑان بھرنے  کا خواب دیکھا کرتی تھیں۔ انہیں چاند،ستاروں میں بہت دلچسپی تھی۔ بڑے ہوتے ہوئے انہوں نے اپنے خواب کی تعبیر کو دیکھا۔شادی کی اور جب ایک عورت سے یہ امید کی جاتی ہے کہ شادی کے بعد اسے اپنے گھر پر ہی دھیان دینا چاہیے،تب وہ بڑے بڑے پروجیکٹس اپنے کاندھوں پہ لیے انہیں پورا کرنے کی شاہراہ پر چل پڑتی ہے۔ ڈاکٹر ریتو کو 2007 میں مشن پلاننگ اور آپریشنز میں ان کے کام کے لیے اسرو کا ینگ سائنٹسٹ ایوارڈ بھی ملا۔

موم (MOM)کے لیے دن رات ایک کیا

دی وائر کو دئیے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ سال 2012 میں جب موم پروجیکٹ شروع ہوا تو ان کے بچے بہت چھوٹے تھے،لیکن پھر بھی انہوں نے دن رات ایک کر کے اپنے کا م اور گھر کو بیلنس کرملک کا نام روشن کیا ۔اس انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا ،”جب 2012 میں موم پر کام شروع ہوا ،تو میرا بیٹا نو سال کا تھا اور میری بیٹی چار سال کی تھی،لیکن ایسا نہیں تھا کہ میں صرف کام کر رہی تھی اور گھر پر دستیاب نہیں تھی۔میں اگر ایک اچھی ماں ہوں تو میرے اپنے جذبات مجھے خود ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لہذا ہمیں ملٹی ٹاسک کرنا ہوگا اور کوشش کو دوگنا کرنا ہوگا۔ میں نے بھی یہی کیا۔ دفتر میں کام کرنے کے بعد گھر واپس گئی تو گھر والوں کے ساتھ وقت گزارا، پھر رات گئے جب سب سو جاتے تو میں اپنا کام کرتی تھی۔ اس طرح میں نے کئی کام کیے،لیکن کبھی بھی میں نے خواب دیکھنا چھوڑا نہیں”۔

اس دوران ریتو نے اپنے لیپ ٹاپ پر ایک چھوٹا سیٹ اپ تیار کیا تھا۔ وہ صبح تین یا چار بجے تک موم کے تمام ٹاسک مکمل کر لیا کرتی تھیں۔ اس دن رات کی محنت کے بارے میں وہ کہتی ہیں، “میں جسمانی طور پر تھکاوٹ محسوس کرتی تھی، لیکن آپ اس تھکاوٹ کو مختلف طریقوں سے دور کر سکتے ہیں۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ زیادہ محنت کر کے جو آپ نے  حاصل کیا ہے،تو سب کچھ ٹھیک لگتا ہے”۔

ورک پلیس کی بڑھتی مانگ کا کیا سامنا

ایسا نہیں ہے کہ انہیں دفتر میں مردوں سے زیادہ کام کرنا پڑا۔ محنت برابر تھی، لیکن ایسا کئی بار ہوا جب شاید انہیں  اپنے بچوں کے ساتھ نہ رہنے کا افسوس ہوا۔ حالانکہ وہ اس سے ابھریں۔اسی انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا ،”ایک وق تھا جب گھر اور آفس دونوں کو مینیج کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔مجھے ایک وقت یاد ہے جب میری بیٹی کو تیز بخار تھا اور میں اسے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جا پائی تھی۔میرے شوہر نے میری بیٹی کی دیکھ بھال کی۔ میں نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا کیونکہ میں اس کے ساتھ نہیں تھی۔ ایسے وقت بھی آئے جب میں اسکول کی تقریبات یا پی ٹی اے میٹنگز میں شرکت نہیں کر پاتی تھی۔لیکن ایک چیز جس نے مجھے طاقت بخشی وہ میرے خاندان کی حمایت تھی۔ میرا ماننا ہے کہ خاندان اور دوستوں کی مدد کے بغیر، ایک عورت کے لیے کم از کم کام کی جگہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔”ریتو یہ چاہتی ہیں کہ مزید خواتین خلائی سائنس کے میدان میں داخل ہوں۔ یہی نہیں، ان کا خواب ہے کہ خواتین کو بھی اس شعبے میں نوبل انعام سے نوازا جائے۔

گھر اور کام کو اچھے طریقے سے متوازن کرتے ہوئے، ریتو بہت سی خواتین کے لیے ایک عظیم تحریک ہیں۔ وہ سکھاتی ہیں کہ زچگی صرف قربانی نہیں ہوتی۔ ماں اپنے طریقے سے ان کی دیکھ بھال کر سکتی ہے اور اس کےساتھ ہی اسے خود کی زندگی جینے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کا پورا حق ہے۔

Dr M. Noor

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago