دراصل بھارت چھوڑو تحریک کے پس منظر میں دوسری عالمی جنگ میں زبردستی ہندوستانیوں کو شامل کرنے اور کرپس مشن کی ناکامی ہے۔ ستمبر 1939میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا۔ ہندوستانی رہنماؤں کے لئے یہ ایک مشکل گھڑی تھی۔ ہندوستانی رہنما نظریاتی سطح پر جرمنی کی فاشسٹ قوتوں کے خلاف تھے۔ لیکن جنگ میں برطانیہ کے حلیف بننے کے لئے بھی تیار نہیں تھے۔ 3ستمبر 1939کوجب باقاعدہ عالمی جنگ کا اعلان ہوا تو 1935 کے ایکٹ کے مطابق ہندوستان اپنے آپ جنگ میں شامل ہو گیا۔ ہندوستانی رہنماؤں نے گاندھی جی کی قیادت میں احتجاج کیا لیکن وائسرائے نے ان کی باتوں پہ زیادہ توجہ نہیں دی۔ ہاں انھوں نے ہندوستانی قیادت کو یہ ضرور یقین دلایا کی عالمی جنگ میں وہ برطانیہ کی بھرپور مدد کریں اور جنگ کے خاتمے کے بعد انگریزی حکومت ہندوستان کو مزید رعایات دے گی۔
لیکن ان کی یہ یقین دہانی ہندوستانی رہنماؤں کے لئے اطمنان بخش اور قابل قبول نہیں تھی۔ ادھر برطانیہ پوری دنیا میں یہ پیغام پھیلا رہا تھا کہ ہندوستان اس عالمی جنگ میں پوری طرح برطانیہ کے ساتھ ہے۔ اس لئے گاندھی جی نے اکتوبر 1940میں تازہ ستیاگرہ تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ انھوں نے وائسرائے کو خط لکھ کر ہندوستان کی پوزیشن واضح کر دی۔ اس انفرادی ستیاگرہ کی رہنمائی کے لئے گاندھی جی نے ونوبا بھاوے جی کا انتخاب کیا۔
 
1941 میں عالمی جنگ اپنے شباب پر تھی۔ برطانیہ اور جرمنی کے علاوہ پولینڈ، بیلجیم، ہالینڈ، ناروے اور فرانس بھی عالمی جنگ کی زد میں تھے۔ جون 1941میں جرمنی نے روس پر حملہ کر دیا۔ دسمبر 1941میں جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کیا۔ ادھر جاپان کی فوجیں برما تک پہنچ چکی تھیں۔ ایسے حالات میں ہندوستانی رہنما کشمکش کے شکار تھے۔ خطرہ دونوں جانب سے تھا۔ انگریزوں کی طاقت بڑھنے کی صورت میں حصول آزادی کا سپنا ٹوٹ سکتا تھا۔ اور ہندوستان کی سرحدوں پر فاشسٹ فوجیں کھڑی تھیں۔ اس صورت حال میں برطانیہ کی بے چینی بھی قابل دید تھی۔ برطانیہ اس مشکل وقت میں ہندوستان سے بھرپور تعاون کی اپیل کر رہا تھا۔ اسی سلسلے میں سر اسٹیفورڈ کرپس کو ہندوستان بھیجا گیا۔ سر اسٹیفورڈ کرپس ہندوستانی معاملات کے ماہر تسلیم کئے جاتے تھے۔
<h4 style="text-align: right;">.اس وقت سر اسٹیفورڈ کرپس برطانیہ کی وار کیبینٹ</h4>
 
کئی اہم ہندوستانی رہنماؤں سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ اس وقت سر اسٹیفورڈ کرپس برطانیہ کی وار کیبینٹ کے ممبر تھے۔ سر کرپس ایک مشن پر ہندوستان آئے تھے۔ جنگ آزادی کی تاریخ میں کرپس مشن کا ایک خاص مقام ہے۔ کرپس مشن سے ہندوستان کو امیدیں وابستہ تھیں۔ ہمارے رہنماؤں کو لگتا تھا کہ برطانیہ اس وقت مشکل میں ہے اس لئے وہ ہندوستان سے کچھ اہم معاملات پر سمجھوتہ کرے گا۔ لیکن اس کرپس مشن میں جو ڈرافٹ برطانیہ کی جانب سے پیش کیا گیا اس میں کچھ خاص نہیں تھا۔ جو کچھ تھا وہ امیدوں سے اس قدر کم تھا کہ ہندوستانی رہنما اسے منظور نہیں کر سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کرپس مشن ناکامی کی نذر ہو گیا۔
 
<h4 style="text-align: right;">.تحریک آزادی ہند اب ایسی موڑ پہ کھڑی تھی جہاں سے راستے بند نظر آرہے</h4>
کرپس مشن کی ناکامی سے ملک بھر میں مایوسی کی ایک فضا قائم ہوئی۔ گاندھی جی واحد رہنما تھے جو کرپس مشن سے بہت زیادہ پُر امید نہیں تھے لیکن اس کی ناکامی سے وہ بھی بہت فکرمند تھے۔ تحریک آزادی ہند اب ایسی موڑ پہ کھڑی تھی جہاں سے راستے بند نظر آرہے تھے۔ یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا۔گاندھی جی نے فیصلہ کیا کہ اب برطانیہ کو سیاسی طاقت پوری طرح ہندوستان کے ہاتھوں میں سونپنا ہوگا۔ واردھا میں جو مٹنگ ہوئی اس میں ”ڈائریکٹ ایکشن“ کی بات سامنے آئی۔”بھارت چھوڑو“ کا نعرہ بلند ہوا۔ بھارت کے ہر شہری نے اس نعرے کو اپنا نعرہ بنا لیا۔ اب ”انگریزوں بھارت چھوڑو“ سے کم کچھ بھی منظور نہیں تھا۔ 7 اگست 1942 کو بمبئی میں اے آئی سی سی کی مٹنگ طلب کی گئی کی ”بھارت چھوڑو تحریک“ کو ایک پالیسی کے طور پر منظور کرایا جا سکے۔
بمبئی میں منعقد اے آئی سی سی کی یہ مٹنگ تاریخی مٹنگ تھی جس میں ”بھارت چھوڑو تحریک“ کا ریزولیشن پاس کیا گیا۔ مٹنگ کے لئے آئے وفد کو مخاطب کرتے ہوئے مہاتما گاندھی نے بہت اہم باتیں کہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آج ہم نے جو ریزولیشن پاس کیا ہے اسے وائسرائے کے پاس بھیجا جا رہا ہے۔ جواب آنے میں دو سے تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔ تب تک آپ سب کیا کریں گے؟ گاندھی جی کے اس سوال پر ہر طرف سناٹا تھا۔ پھر خود گاندھی جی نے ہی جواب دیا کہ تب تک آپ اپنے آپ کو آزاد تصور کریں گے۔ ابھی اسی لمحے سے آپ سب خود کو آزاد تصور کریں۔ اب آپ استعماریت کے پتھر کے نیچے دبے ہوئے انسان نہیں ہیں بلکہ آپ ایک آزاد انسان ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ ایک بہت بڑا لمحہ تھا۔
 
<h4 style="text-align: right;">.گاندھی جی سمیت سبھی بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا</h4>
لیکن انگریزی حکومت کو یہ کب گوارا تھا کہ ہندوستانی خود کو آزاد تصور کریں۔ 8 اگست 1942کی شب میں ہی گاندھی جی سمیت سبھی اہم سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ گاندھی جی کو یہ موقع ہی نہیں دیا گیا کہ وہ وائسرائے سے مل کر اپنا ریزولیشن پیش کر سکیں۔ گاندھی جی کو پونا کے آغا خان پیلیس میں قید کر دیا گیا اور باقی تمام اہم رہنماؤں کو قلعہ احمد نگر میں قید کیا گیا۔ 9اگست 1942کی صبح ہندوستان بھر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئی کہ ”بھارت چھوڑو تحریک“ شروع کرنے کی پاداش میں گاندھی جی سمیت سبھی بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس خبر کے پہنچتے ہی پورے ملک میں لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا۔ ہر شہر اور قصبہ میں لوگ سڑکوں پر اتر آئے۔ جگہ جگہ ہڑتال ہونے لگی۔ لوگوں نے اپنے کاروبار بند کر دئے۔ یہ ایک فطری رد عمل تھا۔ ملک کے کونے کونے سے اپنے رہنماؤں کو قید سے آزاد کرنے کی مانگ اٹھنے لگی۔
<h4 style="text-align: right;">.خوف، امید اور درد میں ڈوبا ہوا جشن</h4>
 
ملک میں ہر طرف ایک جشن کا ماحول تھا۔ خوف، امید اور درد میں ڈوبا ہوا جشن۔ ہر گلی چوراہے پر قومی ترانہ گایا جا رہا تھا۔ لوگوں کے اندر غصہ بھرا ہوا تھا لیکن ہر طرف امن اور شانتی تھی۔ کہیں سے کوئی بدامنی اور تشدّد کی خبر نہیں تھی۔ گاندھی جی نے اہنسا کا جو پاٹھ پڑھایا تھا وہ پاٹھ سب نے یاد کر لیا تھا۔ لیکن جتنی بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کر رہے تھے اس سے انگریزی حکومت خائف تھی۔ حکومت نے لوگوں کو اپنے گھروں میں واپس جانے کو کہا۔
احتجاج کرنے والوں سے حکومت پولیس کے دم پر نپٹنا چاہتی تھی۔ خالی ہاتھ، پُر امن طریقے سے احتجاج کر رہے لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں۔ صرف دہلی میں 11اور 12اگست کو تقریباً 47 مقامات پر گولیاں چلائی گئیں۔ صرف دہلی میں 76بے گناہ مارے گئے اور 114افراد بری طرح زخمی ہوئے۔ یہی صورت حال ملک کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی تھی۔ لوگوں کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ مشتعل لوگوں کے ہجوم کو قابو میں رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ سبھی اہم رہنما جیل میں تھے۔
 
<h4 style="text-align: right;">.انفرادی عدم تعاون کا جذبہ پہلے ایک تحریک کی شکل میں ابھرا</h4>
 
لوگوں میں بے چینی اور بے اطمنانی بڑھتی جا رہی تھی۔ انفرادی عدم تعاون کا جذبہ پہلے ایک تحریک کی شکل میں ابھرا اور پھر بغاوت کی آندھی میں تبدیل ہو گیا۔ مزدور، کسان، طالب علم، اسکول ٹیچر سبھی تحریک کا حصہ بن چکے تھے۔ کہیں کہیں سے تشدّد کی خبریں بھی آنے لگیں۔ پولیس تھانہ، ریلوے اور پوسٹ آفس کو لوگوں نے نشانہ بنایا۔ جے پرکاش نرائن، رام منوہر لوہیا اور ارونا آصف علی انڈر گراؤنڈ ہو کر تحریک کی رہنمائی کر رہے تھے۔ ملک بھر میں ہزاروں مظاہرین کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کا ظلم و ستم جیسے جیسے بڑھتا گیا عوام کے دلوں میں نفرت اور غصہ بھی بڑھتا گیا۔ اگرچہ حکومت نے طاقت کے زور پہ اس تحریک کو کچل دیا لیکن اس سے دو باتیں واضح ہوئیں۔
 
 
پہلی بار ہندوستان کی عوام اتنی بڑی تعداد میں حصول آزادی کے لئے سڑکوں پہ اتری اور اسے یہ یقین ہو گیا کہ طاقتور انگریزی حکومت کو شکست دی جا سکتی ہے۔ عوام میں یہ پیغام پہنچا کہ اب آزادی سے کم کچھ بھی قبول نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام کے جذبے کو دیکھ کر انگریزی حکومت نے بھی یہ محسوس کر لیا کہ اب بہت دیر تک ہندوستان کو غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ 8اگست 1942 سے 15اگست 1947تک صرف یہ دیکھنا باقی تھا کہ آزادی کس دن اور کس تاریخ کو ملے گی۔ اس ”بھارت چھوڑو تحریک“ نے دراصل ہمیں آزادی کے دروازے پر کھڑا کر دیا تھا۔ اب صرف دروازے سے اندر داخل ہو کر ہمیں ترنگا پرچم لہرانا تھا۔ جسے ہم نے 15اگست 1947کو لال قلعے پر لہرایا۔
 
<h4 style="text-align: right;">.دراصل ہمارے دلوں میں وطن سے محبت کی ایک نئی جوت جگانے</h4>
اب 2017میں ”بھارت چھوڑو تحریک“ کے 75سال پورے ہوئے تو ملک کے وزیر اعظم نے عوام میں بے حد مقبول ریڈیو پروگرام ”من کی بات“ میں بھارت چھوڑو تحریک کو یاد کر کے دراصل ہمارے دلوں میں وطن سے محبت کی ایک نئی جوت جگانے کا کام کیا ہے۔ عزت ماب وزیر اعظم ہند نے ہمیں ہماری ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا ہے۔ انھوں نے بڑی خوبصورتی سے 75سالہ سفر کو ایک لڑی میں پرونے کا کام کیا ہے۔ وزیر اعظم نے اگست کے مہینے کو انقلاب کا مہینہ قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ یہ ہم بچپن سے یہ سنتے آئے ہیں۔
وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ نئی نسل کو یہ ضرور جاننا چاہئے کہ 9اگست 1942کو کیا ہوا تھا۔ کیوں طالب علموں نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ کیوں گاندھی جی کی ایک آواز پر لاکھوں نوجوان اور طالب علم اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار تھے۔
 
<h4 style="text-align: right;">.خصوصیات کی بنا پر اگست کے مہینے کو انقلاب کا مہینہ کہتے ہیں</h4>
 
آج ہم کو یہ ضرور جاننا چاہئے۔ انھوں نے پہلی اگست 1920کے عدم تعاون تحریک کو یاد کیا اور 9اگست 1942کے بھارت چھوڑو تحریک کو یاد کیا اور پھر 15اگست 1947کو یاد کیا۔ انھوں نے بتایا کی انھی خصوصیات کی بنا پر اگست کے مہینے کو انقلاب کا مہینہ کہتے ہیں۔ اگست کرانتی کے 75سال پورے ہونے کے موقع پر ہندوستان کے سوا سو کروڑ لوگوں کو ایک عہد کرنا چاہئے کہ ملک کے ایک شہری کے طور پر ہم اپنے ملک کا نام روشن کریں گے۔ ہم کو اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔
 
 
آج کرو یا مرو کی ضرورت نہیں ہے۔  جڑنے کی ضرورت ہے۔ نئے بھارت کی تعمیر کے لئے ایک عہد کرنے کا وقت ہے۔ آج 75 سال بعد ہمیں ایک بار پھر بھارت چھوڑو کا نعرہ بلند کرنا ہے۔ گندگی بھارت چھوڑو، غریبی بھارت چھوڑو، فرقہ پرستی بھارت چھوڑو، ذات پات بھارت چھوڑو، بدعنوانی بھارت چھوڑو، آتنک واد بھارت چھوڑو، اور تنگ نظری بھارت کا چھوڑو کا نعرہ ہمیں بلند کرنا ہوگا۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو نئی دہلی میں تدریس سے وابستہ ہیں۔).
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…