مجموعی اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے، بین الاقوامی ٹیکسیشن کے نظام کو معقول تر بنانے. ممالک پر عائد قرض کے بوجھ سے انہیں راحت بہم پہنچانے کے معاملے میں .. سابقہ جی 20 کی 17 صدارتوں نے متعدد دیگر نتائج کے علاوہ اہم نتائج بہم پہنچائے۔ ہم ان حصولیابیوں سے فوائد حاصل کریں گے اور ان کو مزید جلا بخشیں گے۔ جی 20 کی صدارت
تاہم، اب جبکہ بھارت اس اہم ذمہ داری کا بیڑا اٹھانے جا رہا ہے، میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں – کیا جی20 مزید آگے جا سکتا ہے؟ کیا ہم اندازِ فکر میں ایک بنیادی تغیر لانے کے معاملے میں محرک ثابت ہو سکتے ہیں جو مکمل بنی نوع انسانیت کے لیے مفید ثابت ہو؟
ہمارے انداز فکر ہمارے گردو پیش کی صورتحال سے نشو و نما حاصل کرتے ہیں۔ تمام تر تاریخوں پر نظر ڈالنے سے، بنی نوع انسانیت کی نمائندگی ہمیشہ قلت کی شکار نظر آتی ہے۔ ہم محدود وسائل کے لیے باہم نبرد آزما رہے کیونکہ ہماری بقاء کا انحصار دوسروں کو ان وسائل سے محروم رکھنے پر تھا۔ تصورات ، نظریات اور شناخت کے مابین تصادم اورمقابلے نے ہمارے معمول کی شکل اختیار کرلی تھی۔
بدقسمتی سے، ہم آج بھی اسی تصادم اور مقابلے پر مبنی اندازِ فکر کے اسیر ہیں۔ ہمیں یہ بات اس وقت مشاہدہ میں آتی ہے جب ممالک سرزمین یا وسائل کے لیے جنگ آزما نظر آتے ہیں۔ ہم اس کا مشاہدہ اس وقت بھی کرتے ہیں جب لازمی اشیاء کی بہم رسانی اسلحوں کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ ہم اس صورت حال سے اس وقت بھی روبرو ہوتے ہیں جب چند لوگ اس کی ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں اور وہ بھی ان حالات میں جب اربوں صحت کے اعتبار سے کمزور افراد کو اس کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
میں اس سے اتفاق نہیں کرتا ہوں۔ اگر سارے انسان داخلی طورپر مفاد پرست ہوتے. تو پھر اس صورت میں ان متعدد روحانی روایات کی طرف انسانوں کے مستقل طور پر جھکاؤکا کیا .جواز پیش کیا جائے گا جو ہم سبھی کے بنیادی طور. پر ایک وجود کی طرح ہونے کی وکالت کرتی ہیں؟
ایک ایسی روایت، جو بھارت میں بہت مقبول ہے، اس کے تحت تمام تر ذی روح وجوووں کو. یہاں تک کہ بے جان چیزوں کو بھی اُنہی پانچ بنیادی عناصر کا مرقع مانتی ہے. یعنی عناصر خمسہ زمین، پانی، آگ، ہوا اور خلاء۔ ان ہی پانچ عناصر کے مابین ہم آہنگی. – ہمارے اندر موجود ہے- اور ہماری طبیعاتی ، سماجی اور ماحولیاتی خیروعافیت کے لیے لازمی حیثیت رکھتی ہے۔
بھارت کی جی 20 صدارت اس آفاقی اتحاد کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گی. لہٰذا ہمارا موضوع – ایک کرہ ٔ ارض ، ایک کنبہ، ایک مستقبل ،محض ایک نعرہ نہیں ہے۔ اس میں بنی نوع انسانیت سے متعلق صورتحال میں رونما ہوئیں حالیہ تبدیلیوں کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے. ہم جس کے اجتماعی احساس و ادراک سے قاصر رہے ہیں۔
آج، ہمیں اپنی بقاء کے لیے دوسروں سے نبردآزما ہونے کی ضرورت نہیں ہے. ہمارا عہد جنگ کا عہد ہو یہ ضروری نہیں ہے۔ دراصل ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے۔
آج، ہمارے سامنے درپیش سب سے بڑی چنوتی – موسمیاتی تبدیلی، دہشت گردی. اور وبائی امراض ہیں- انہیں ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہوئے بغیر ، صرف ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
خوش قسمتی سے، آج کی تکنالوجی ہمیں پوری بنی نوع انسانیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے. متعین کردہ پیمانے کے مطابق مسائل کا حل نکالنے کے ذرائع فراہم کرتی ہے۔ وسیع تر ورچووَل دنیا جہاں ہم آج سکونت پذیر ہیں. اس میں ڈجیٹل تکنالوجیوں کی عملی افادیت ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
،جہاں پوری بنی نوع انسانیت کا چھٹا حصہ، لسانیات، مذاہب. رسم و رواج اور عقائد کے زبردست تنوع کے ساتھ سکونت پذیر ہے.
اجتماعی طور پر فیصلہ سازی کی قدیم ترین روایات کے ساتھ، بھارت جمہوریت .کے بنیادی ڈی این اے میں اپنا تعاون فراہم کرتا ہے۔ مادرِ جمہوریت کے طور پر بھارت کا قومی اتفاق رائے صرف احکامات کے ذریعہ وضع نہیں کیا جاتا. بلکہ کروڑوں آزاد آوازیں مل کر ایک ہم آہنگی کی حامل موسیقی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
آج، بھارت سب سے زیادہ تیز رفتار کی حامل نمو پذیر وسیع ترین معیشت ہے۔ ہمارا شہریوں پر مرتکز حکمرانی کا ماڈل . ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کی خلاقانہ صلاحیتوں کو بالیدہ بنانے کے ساتھ ساتھ ہمارے ازحد حاشیے. پر زندگی بسر کرنے والے شہریوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔
ہم نے قومی ترقی کو بھرپور اور جامعہ حکمرانی کے معاملے میں نہ صرف ایک عمل کی شکل دینے کی کوشش کی ہے، بلکہ اسے شہریوں کی قیادت والی عوامی تحریک کی شکل میں لانے کی کوشش بھی کی ہے۔
ہم نے ٹیکنالوجی کو اس انداز سے بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے تاکہ ایسا ڈجیٹل عوامی فلاح و بہبود ممکن ہو سکے. جو کھلاہوا، مبنی بر شمولیت اور باہم اثر پذیر ہو۔ ان چیزوں نے سماجی تحفظ، مالی شمولیت اور الیکٹرانک ادائیگیوں سمیت مختلف النوع شعبوں. میں انقلابی پیش رفت پر مبنی نتائج بہم پہنچائے ہیں۔
ہماری جی 20 کی ترجیحات نہ صرف ہمارے جی 20 شراکت داروں کی مشاورت سے طے ہوں گی. بلکہ گلوبل ساؤتھ کے رفقائے کار، جن کی آواز اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے، ہم ان کی باتوں کا بھی لحاظ رکھیں گے۔
ہماری ترجیحات ایک کرۂ ارض کی صحت بحال کرنے، ہمارے ایک کنبے کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے .اور ہمارے ایک مستقبل کے لیے امید بہم پہنچانے پر مشتمل ہوں گی۔
ہمارے کرۂ ارض کی صحت بحال کرنے کے لیے ہم ہمہ گیر ماحولیات دوست انداز ہائے حیات. کی حوصلہ افزائی کریں گے جو فطرت کے تئیں ایک نگراں کی بھارت کی روایت پر مبنی ہوگی۔
انسانی کنبے کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے. ہم خوراک، کیمیاوی کھاد اور طبی مصنوعات کی عالمی سپلائی کو سیاست کی گرفت سے آزاد کرانے کی خواستگاری کریں گے. تاکہ ارضیاتی-سیاسی کشیدگیاں بنی نوع انسان سے متعلق بحران نہ پیدا کر دیں۔ ہمارے اپنے کنبوں میں، جیسا کہ ہوتا ہے. جن کی ضروریات سب سے زیادہ بڑی ہوتی ہیں ان پر توجہ مرکوز کرنا ہماری پہلی فکر ہوتی ہے۔
اپنی مستقبل کی پیڑھیوں میں امید جگانے کے لیے ہم ازحد طاقتور ممالک کے. مابین دیانت دارانہ گفت و شنید کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ زبردست تباہی کے ہتھیاروں کی وجہ سے جو خطرات درپیش ہیں انہیں کم کرنے پر بات چیت کا اہتمام کرنا چاہیں گے. اور عالمی سلامتی کے اضافہ کی بھی فکر کریں گے۔
آیئے ہم بھارت کی جی 20 صدارت کو بحالیٔ صحت . اور ہم آہنگی و امید کی صدارت بنانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوکر کام کریں۔
آیئے ہم سب ایک نئی مثال- بنی نوع انسانیت پر مرتکز. عالم کاری کا خاکہ وضع کرنے کے لیے مل جل کر کام کریں۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…