فرانس میں سڑکیں اوبڑ کھابڑ نہیں ہیں۔ یہاں ہر گلی صاف ستھری اور ہموار ہے۔ یہاں بارش ہوتی رہتی ہے لیکن نہ کہیں پانی جمع ہوتا ہے اور نہ کہیں کیچڑ لگتا ہے۔ آپ یہاں کی سڑکوں کو کسی صنف نازک کے گال سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ لیکن بس اس فرق کے ساتھ کہ یہاں کی سڑکیں نازک نہیں ہوتی ہیں۔ فرانس میں سڑکیں
بہر کیف! اتنی صاف ستھری سڑکوں پر میں منہگی منہگی اور بڑی بڑی گاڑیوں کو دوڑتے کم کم ہی دیکھتا ہوں۔ بہت دیر اور دور تلک سڑکوں پر نظر جمائے رکھا تو کبھی اتفاق سے ایک دو بی۔ایم۔ڈبلیو، مرسیڈیز یا آڈی نظر آ گئی۔ لیکن اس میں بھی اکثر و بیشتر چھوٹے موڈل کی۔ فراری اور رولس رائس تو اب تک نظر نہیں آئی۔ در اصل یہاں کے لوگ مہنگی گاڑیاں رکھنے کے شوقین نہیں ہوتے ہیں۔ اندرون شہر اگر کسی کو کہیں آس پاس جانا ہو تو وہ پیدل ہی چلے جاتے ہیں۔ شہر کے اندر دور جانا ہوا تو میٹرو لے لیتے ہیں ۔ پیرس جیسے شہر میں سائکل اور تروتی نت (الیکٹرک سواری) بہت عام ہے۔ یہاں لوگ عام سی اور بہت فطری زندگی گزارتے ہیں۔
فرانس میں سڑکیں
ہندوستان میں سڑکیں اکثر جگہ ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہیں۔ دہلی جیسے شہر میں تھوڑی سی بارش ہو جائے تو پانی گھٹنے تک جمع ہو جاتا ہے۔ نالیوں اور گٹر سے پانی نکل نکل کر سڑکوں پر بہہ رہا ہوتا ہے۔ ہندوستان کی سڑکیں اس خارش زدہ کتے کے بدن کی طرح ہے جس پر کہیں بال ہوتا ہے اور کہیں زخم اور اس میں ٹپکتا ہوا پیپ۔۔ لیکن آپ دیکھیں کہ دہلی میں کتنی مہنگی مہنگی اور بڑی بڑی لگژری گاڑیاں چلتی ہیں۔ ہر دوسرے تیسرے سیکنڈ میں کبھی رولس رائس تو کبھی فراری نظروں کے سامنے سے گزرتی نظر آتی ہے، بارش کا موسم ہو تو چھپاک چھپاک پانی اڑاتی ہوئی۔ وہاں سائکل چلانے میں لوگ عار محسوس کرتے ہیں۔ اب تو گاؤں دیہات میں بھی سائکل سواری کا رواج اٹھ گیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اب لڑکے جہیز میں بھی سائکل نہیں مانگتے۔
تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں پیرس کی اس تہذیب کو جہاں چھوٹی گاڑیاں رکھنا، سائکل چلانا اور تروتی نت جیسی چھوٹی سی الکٹرک سواری کا استعمال شرم کی بات نہیں ہے۔۔۔
تحریر : محمد ریحان