Categories: عالمی

پاکستان میں ونی(سوارہ) کی رسم خلاف شریعت قرار، جانئے کیا ہے سوارہ رسم؟

<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
اسلام آباد،26اکتوبر(انڈیا نیرٹیو)</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ملک کے مختلف حصوں میں رائج ’سوارہ‘ کی رسم کو اسلامی شریعت کے منافی قرار دے دیا۔تفصیلات کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل فل بینچ نے ریمارکس دیے کہ ”کم عمر لڑکی کو دے کر تنازعات حل کرنے کی روایت اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔“</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
سوارہ یا ونی سے متعلق سکینہ بی بی کی درخواست پر سماعت کے دوران فاضل عدالت نے قرار دیا کہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی کی روشنی میں یہ رسم، جو ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے رائج ہے، قطعا ًغیر اسلامی اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ عدالت نے وضاحت کی ہے کہ اس رسم کے خلافِ اسلام ہونے پر جمہور علماکا اجماع ہے۔واضح رہے سوارہ جیسی قبیح رسم میں تنازعات ختم کرنے کے لیے تلافی کے طور پر لڑکیاں اور اکثر کم سن بچیوں کی شادی کر دی جاتی ہے یا انہیں متاثرہ خاندان کو بطور غلام دے دیا جاتا ہے۔ ایسا اکثر قتل کے کیس میں کیا جاتا ہے۔ یہ بغیر رضامندی یا کم عمری میں شادی کی قسم ہے۔ سزا کا یہ فیصلہ قبائلی عمائدین کی کونسل کی جانب سے کیا جاتا ہے جسے جرگہ کہتے ہیں۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
درخواست گزار نے ونی کے رواج کو متعدد وجوہات کی بنا پر چیلنج کیا تھا۔ درخواست کے مطابق تنازعات کے حل کے لیے جرگوں یا پنچائیت میں دی جانے والی یہ سزائیں، خواتین یا کمسن لڑکیوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔ درخواست گزار نے کہا کہ جرگہ یا پنچائیت ’بدلِ صلح‘ کے تصور کو غلط سمجھتے ہیں اور یہاں مسئلے کو حل کرنے کے لیے تلافی کے طور پر کم عمر لڑکیاں متاثرہ خاندان کے حوالے کردی جاتی ہیں۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
 درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ اس رواج کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔وفاقی شرعی عدالت میں جیورسٹ کونسل ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کا کہنا تھا کہ ونی، خواتین کے کم وبیش چار بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق ملزم خاندان کی جانب سے دی جانے والی لڑکی کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جاتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں انہیں بنیادی سہولیات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ ان لڑکیوں کی شادی ان کی مرضی کے بغیر کسی بھی شخص سے کر دی جاتی ہے اور تیسرا مسئلہ یہ کہ وہ مہر کی حقدار ہوتی ہیں نہ ہی شادی کو ختم کرنے کے لیے خلع کی قانونی درخواست دائر کر سکتی ہیں۔ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کا مزید کہنا تھا کہ قتل کے کیس کو حل کرنے کا قانونی طریقہ دِیَت یا خون بہا کی رقم ہے جو اسلام میں بھی قابل قبول ہے۔ تاہم روایتی نظام میں تنازعات کو حل کرنے کے لیے ونی یا سوارہ کو جائز سمجھا جاتا ہے لیکن علما اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔</p>

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

9 months ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

9 months ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

9 months ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

9 months ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

9 months ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

9 months ago