مشاعروں کے بے پناہ مقبول شاعر معراج فیض آبادی (مرحوم) کو یاد کر رہے ہیں بے مثال ناظم مشاعرہ معین شاداب۔ معراج فیض آبادی کے حوالے سے معین شاداب نے جو گفتگو کی ہے وہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ معین شاداب نے معراج صاحب کو قریب سے دیکھا تھا۔ معین شاداب نہ صرف مشاعروں کے بے پناہ مقبول اور کامیاب ناظم ہیں بلکہ وہ ایک باکمال شاعر بھی ہیں۔ اور بہت پیارے انسان بھی ہیں۔ معین شاداب کی مقبولیت قابل رشک ہے۔ ان کی ہنر مندی ہے کہ وہ سچ لکھتے ہیں، سچ بولتے ہیں لیکن ان کا سچ بہت کڑوا نہیں ہوتا۔ معراج فیض آبادی پر معین شاداب کا یہ خوبصورت تاثراتی مضمون انڈیا نیریٹو کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ معین شاداب کا بہت بہت شکریہ (ٹیم انڈیا نیریٹو اردو، نئی دہلی)
معراج فیض آبادی: چندن تو چندن ہے، تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو… معین شاداب
ایک مرتبہ ’فیس بک‘ پر ایک کرم فرما نے مجھے فرینڈ ریکویسٹ بھیجی۔ ساتھ میں انھوں نے ایک پیغام بھی ارسال کیا، جس میں انہوں نے لکھا تھا۔ ’’ایک ادبی محفل میں جب آپ نے وسیم بریلوی صاحب کے بارے میں کہا تھا کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں لفظ تہذیب لکھوں اور اس کے آگے وسیم صاحب کی تصویر لگادوں، تو پیچھے بیٹھے معراج فیض آبادی صاحب نے آپ کی پیٹھ تھپتھپائی تھی، وہ منظر آج بھی دھیان میں ہے۔ ‘‘
اپنی نظامت کے یہ جملے تو میرے گوشۂ ذہن میں محفوظ نہیں رہے اور نہ ہی میں یہ یاد کر پا رہا ہوں کہ یہ کس مشاعرے کا واقعہ ہے، البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ معراج فیض آبادی نے نہ جانے کتنے موقعوں پر میری نظامت اور شاعری کی حوصلہ افزائی کی۔ ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ کرت پور(ضلع بجنور) میں مشاعرہ تھا۔ معراج فیض آبادی صاحب نظامت کر رہے تھے، انہوں نے مجھے دعوت دی۔ میں نے کلام سنانا شروع کیا۔ ایک شعر پر سامعین کا رد عمل ذرا سرد رہا۔ معراج صاحب کی نظر میں اس شعر کی جتنی ستائش ہونی چاہیے تھی شاید اتنی داد نہیں ملی تھی۔ وہ سامعین سے مخاطب ہوئے، حضرات آپ نے معین شاداب کے اس شعر کو توجہ سے نہیں سنا۔ پھر معراج صاحب نے وہ شعر دہرایا اور کہا کہ اب ایک مرتبہ پھر یہ شعر سنیے اور مجھے وہ شعر مکرر پڑھنے کے لیے کہا۔ میں نے وہ شعر پڑھا تو سامعین نے توقع سے زیادہ پذیرائی کی اور پھر میں نے جو بھی سنایا اس پر خوب داد ملی۔ اس دوران معراج بھائی بھی مائیک سے مسلسل حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ حالانکہ اس دوران ہمارے بعض سینئر شعرا نے چٹکی لیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’معین شاداب کو سیّد ہٹ کرا کے چھوڑے گا‘۔ معراجؔ فیض آبادی کا یہ احسن سلوک صرف میرے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نئے شعرا کا اسی طرح حوصلہ بڑھاتے تھے۔ ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہیں جو معراج فیض آبادی کی خورد نوازی اور نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کا ثبوت ہیں۔ کسی مشاعرے کی رپورٹ میں اگر انھیں میرا کوئی شعر اچھا لگتا تو وہ فون کرتے اور حوصلہ بڑھاتے، یہ ان کا معمول تھا۔
مجھے معراجؔ فیض آبادی کی نظامت میں مشاعرے پڑھنے کا بھی شرف حاصل رہا اور ان مشاعروں کی نظامت کرنے کا بھی جن میں وہ بحیثیت شاعر شامل رہے، لیکن کسی بھی موقع پر میں نے ان کی شفقت اور محبت میں کمی محسوس نہیں کی۔
معراج ؔفیض آبادی ان شعرا میں سے تھے جنہوں نے اپنی شاعری اور اپنے رکھ رکھاؤ سے مشاعرے کے ادبی وقار کو قائم رکھا ہے۔ آج مشاعرے جس طرح اپنی ادبی اہمیت اور حیثیت تیزی کے ساتھ کھوتے جارہے ہیں ایسے میں معراج فیض آبادی کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ معراجؔ فیض آبادی عمر کے آخری کچھ برسوں میں سرطان کا شکار تھے۔ اس موذی مرض کا انہوں نے مرادانہ وار مقابلہ کیا، لیکن صرف یہی پانچ، چھ برس کیا وہ تو تمام عمر کینسر سے لڑتے رہے۔ اس کینسر سے جس نے قوم، معاشرے اور ملک کو جکڑ رکھا ہے۔ احساس کمتری، بے عملی، بداخلاقی، بدگمانی، ناانصافی اور قدروں کے زوال جیسی نہ جانے کتنی خرابیوں کے کینسر کا مقابلہ، وہ اپنی صالح فکر اور صحت مند سخن کے ذریعہ کرتے رہے۔
معراج ؔبھائی کسی زمانے میں ترنم سے کلام سناتے تھے لیکن ان کی شناخت تحت الفظ کے قابل ذکر شاعر کے طور پر قائم ہوئی۔ دل و دماغ پر اثر کرنے والا لہجہ اور ذہن و دل میں اتر جانے والا انداز بیان انہیں وہی انفراد عطا کرتا تھا جو ان کی شاعری کو حاصل تھا۔ بلاشبہ ان کا شمار صف اول کے ان چند شعرا میں ہوتا تھا جو اپنے خاص تحت کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔
معراج ؔصاحب کی ذات بھی کئی صفات کی حامل ہے اور ان کی شاعری بھی۔ ان کی شخصیت اور فن میں توازن قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اعتدال نے ان کے اندر ایک تخلیقی اعتماد پیدا کر دیا تھا۔ ان کی شاعری صرف بے بسی کی وہ داستان نہیں ہے جو کسی فرد کسی قوم اور کسی ملک کی ترجمانی کرتی ہے، بلکہ حال کا مرثیہ، مستقبل کا رزمیہ اور ماضی کی شوکت و رعنائی کا نوحہ بھی ہے۔ ان کی شاعری کسی فرد یا قوم کو شام غم سے نکال کر صبح مسرت کی بشارت دیتی ہے۔
معراج ؔفیض آبادی نے مشاعروں میں شہرت سے لے کر مقبولیت اور مقبولیت سے لے کر محبوبیت تک کا سفر وقار کے ساتھ طے کیا۔ ان کی بیشتر غزلیں مقبول ہوئیں۔ بہت سے اشعار لوگوں کے حافظے کا حصہ بن گئے۔ ان کے بعض شعروں نے تو مقبولیت کی وہ حدیں پار کیں کہ وہ ان کی شناخت بن گئے۔ مثلاً ان کے یہ دو شعر:
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے
اب ابابیلوں کے لشکر نہیں آنے والے
کئی شاعر ایسے ہیں کہ اگر کوئی گلوکار ان کی کوئی غزل گا دیتا ہے تو مشاعرے کے اسٹیج پر اس کا پروپیگنڈہ کرتے نہیں تھکتے کہ فلاں سنگر نے یہ غزل گائی ہے۔ لیکن معراج صاحب نے کبھی کسی مشاعرے میں اپنے منہ سے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ وہ کبھی خود نمائی یا خود ستائی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ معراج فیض آبادی کی بھی بعض غزلوں کو جگجیت سنگھ نے اپنی آواز دی تھی۔
معراج فیض آبادی کے پانچ شعری مجموعے منظر عام پر آئے۔ پہلا شعری مجموعہ ’بے خواب ساعتیں‘ تھا اس کے بعد ’ثبات‘، ’دائم‘ اور ’ناموس‘ شائع ہوئے۔ ایک مجموعہ دیوناگری رسم الخط میں ’تھوڑا سا چندن‘ کے نام سے چھپا۔
بے خواب ساعتوں کے شاعر معراج فیض آبادی نے معاشرے کے خوابوں کا نیا تعبیر نامہ لکھنے کی کدوکاوش کی۔ وہ اداس راتوں کی بیداری اور جاگتی راتوں کے اضمحلال سے اپنی شاعری کو دھوپ چھاؤں بخشتے رہے۔ ایک ایسا غیور شاعر جس نے پیاسا رہنا پسند کیا لیکن اپنی پیاس کے آگے تشنہ لب دریا کو بے آبرو نہیں ہونے دیا۔ ان کی شاعری انفس و آفاق کے ناموس کا تحفظ کرتی رہی بالکل اسی طرح جیسے دو معصوم ہتھیلیاں کسی چراغ کو خودسر آندھیوں سے بچانے کی بس بھر کوششوں میں مصروف ہوں۔
معراج فیض آبادی کا لہجہ اور لہجے کی تہذیب، ان کی فکر اور فکر کی شائستگی، زبان اور زبان کی شستگی، بیدار ذہنی اور ذہنی بیداری کے اجالے، ان کی کھلی آنکھیں اور اس کا بے کراں ادراک…..یہ تمام عوامل ’بے خواب ساعتوں‘ سے وجود میں آنے والی شاعری کو ’ثبات‘ بخشتے ہیں اور یہ ثبات ان کے نام کو قائم ہی نہیں ’دائم‘ بھی رکھے گا۔ ’چندن‘ تو چندن ہے چاہے تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو۔