Urdu News

سید محمد اشرف کی راےء معین شاداب کی تحریر کو مزید معتبریت عطا کرتی ہے : ڈاکٹر نگار عظیم

ڈاکٹر نگار عظیم اور معین شاداب

 

 


 
"افکار و اظہار"  ایک تعارف  
لیجےء جناب ایسا بھی ہوتا ہے مدت سے شعری مجموعے کا انتظار تھا لیکن کتاب آئی بھی تو مضامین کی ۔ اور مصنف ہیں آپکے ہر دلعزیز شاعر معروف و منفرد ناظم جناب معین شاداب ، خود سے بے نیاز ،  یہ ان کی قلندرانہ طبیعت کی ہلکی سی جھلک ہے حد تو یہ ہے کہ اچھے خاصے با وجیہ خوبصورت اور باوقار  ہونے کے باوجود کتاب پر کہیں آپکی تصویر تک نہیں ۔   مضامین کی  تعداد بھی کچھ کم نہیں ۔ پورے اکتالیس شاعروں کی رنگ برنگی کہکشاں ۔  یہ تمام مضامین شاعر شاعرات اور ان کے فن کے حوالے سے ہیں ۔ یقینآ کچھ مضامین میں دوستی اور مروت کا پاس بھی رہا ہو گا ۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ شعری کاوشوں  پر قلم اٹھانے کے لےء جس بصیرت کی ضرورت ہے وہ بہت کم ادیبوں کو میسر ہے اور معین شاداب ان میں سے ایک ہیں ۔ شاعری کے لےء معین شاداب کا نظریہ بہت واضح کشادہ اور اہمیت کا حامل ہے ۔ لکھتے ہیں:
"شاعری بصیرت ہے،  بصارت ہے ، ورژن ہے،  احساس ہے،  آگہی ہے اور ادراک ہے ۔ شاعری شعور بھی ہے،  لاشعور بھی اور تحت الشعور بھی ۔ شاعری انا الحق کی صدا بھی ہے اور اللہ ھو کی ضرب بھی ۔ شاعری عنوان ہے اضطراب کا،  سکون کا ۔ استعارہ ہے آنسوؤں کا،  مسکراہٹوں کا،  علامت ہے حیات کی  ، کائنات کی،  ۔ شاعری تہزیب کا چہرہ ہے ۔ثقافت کا عکس ہے ۔ شاعری جز و پیغمبری ہے اور شاعر تلمیز الرحمن ۔ شاعری کو کوئ ایک نام نہیں دیا جا سکتا جتنے قلم اتنے عنوان ۔۔۔۔"
کیا ہی خوبصورت زبان کی چاشنی اور شادابی ہے آپکی نثر میں واااہ ۔ اور حیرت کی بات یہ کہ ہر شاعر کے کلام پر معین شاداب کی قرأت منفرد ہے ۔ یہ مضامین روا روی میں لکھے ہوےء نہیں ہیں بلکہ یہ تحقیقی تنقیدی تجزیاتی تعمیری اور نظریاتی حیثیت کے حامل ہیں ۔  انداز تحریر کہیں کہیں فلسفیانہ بھی ہو جاتا ہے  اظہار اثر کے بارے میں معین شاداب فرماتے ہیں :                                                
"کسی شاعر کو سمجھنے کے لےءاس کی زندگی اور زندگی کے تئیں اس کے رویے کو سمجھنا  بہت ضروری ہے ۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کو دو درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک وہ جو مثبت فکر لے کر پیدا ہوےء ہیں اور دوسرے وہ جن کی زندگی منفی فکر کی طابع ہوتی ہے ۔ مثبت فکر والے انسان کسی ناکامی اور کسی غم سے نڈھال نہیں ہوتے ، وہ جدوجہد کو ہی زندگی کا اصل مقصد مانتے ہیں اور ہر قیامت میں گوشہء عافیت بنا لیتے ہیں  اظہار اثر اسی فطرت کے مالک ہیں ۔ اپنے ایک شعر میں انہوں نے اس طرح اپنی فطرت کی جھلک دکھائی ہے ۔
وہ تو غالب تھے جنہیں شکوہء کمیابی تھا
اپنے  ارماں  تو  اثر  حسب  ضرورت   نکلے 
اظہار اثر زندگی سے کبھی مایوس نہیں ہوےء بلکہ ہر غم کو اپنے ماضی کے حوالے کر کے خوش آئند خوابوں کی منزل کی طرف بڑھتے گےء"
اس شعر کی اہمیت افادیت کو اجاگر کرنے کے لےء یہ چند لائن خود بہ خود کسقدر اہم بن جاتی ہیں ۔ یہ معین شاداب کا خاصہ ہے ۔ 
ابھی میں نے صرف اپنے پسندیدہ شاعروں پر لکھے  مضامین پڑھے اور بے حد محظوظ ہوئ بلکہ اس تحریر 
کے ذریعہ ان کے کلام کی افادیت اور حسن کو پہچانا تفہیم  کا ایسا لہجہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ثروت حسین ثروت میرٹھی  کی شاعرانہ وحدت اور اس میں پوشیدہ جلو کو معین شاداب نے کس گہرائ سے جانا  اور سمجھا   ذرا غور فرمائیے ۔ شاداب لکھتے ہیں :                                                         
"ثروت میرٹھی کی شاعری ذوق نظارہ یا شوق تماشہ کا  ایک عالم خیال ہے جو محض حسن و عشق کی ظاہری  نیرنگیوں کی عبارت نہیں بلکہ حقیقت اور مجاز کے فاصلوں کو ناپنے کی ایک کوشش ہے ۔ نظروں کے اضطراب اور جلووں کے ارتعاش  میں ٹھہراو کا انتظار کرتی یہ شاعری وہم و خیال کے طلسم کو توڑتی ہے ۔ شاعر ذوق نظارہ کو آزمانے پر اکتفا نہیں کرتا  بلکہ جلووں میں گم ہو کر اپنا سراغ پانے کی سعی  مسلسل کر تا ہے۔ نقاب ہٹانے کا مطالبہ ، حجاب سے باہر آنے کا اصرار یا چلمن سرکنے کی خواہش خارجی سیاق میں تسکین نگاہ کا وسیلہ یا ظرف نظر کو پرکھنے کی جستجو کا نتیجہ ہو سکتی ہے ۔ لیکن داخلی سطح پر دید کا یہ سودا  :                           
آرائش جمال سے فارغ  نہیں ہنوز                          
پیش نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں                           
کے رمز کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور جب پردہ اٹھتا ہے تو وہی ہوتا ہے نظریں جلووں کی تاب لانے سے عاجز ہیں ۔ نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور ہوش اڑ جاتے ہیں اور یہ پردہ صرف جلووں سے نہیں اٹھتا آنکھوں سے بھی ہٹتا ہے ۔  پردہء ہستی چاک ہوتا ہے اور کون و مکاں کی منزلیں سر ہوتی ہیں ۔ ثروت میرٹھی نے اپنا فکری کوہ طور خلق کر کے دراصل جمال کی پریشانی اور چشم کی حیرانی کو  اس طرح ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے کہ مادیت اور روحانیت کے فاصلے مٹ گےء ہیں ۔"  شعر کی اس طرح  منفرد عالمانہ تفہیم معین شاداب کے ادبی قد کو بلندی عطا کرتی ہے ۔   
کتاب کا پیش لفظ "سرسبز و شاداب نثر کا مرقع" کے عنوان سے معروف فکشن نگار سید محمد اشرف نے تحریر کیا ہے عنوان  سے ہی نثر کی شادابی کا اندازہ  بخوبی ہو رہا ہے ۔  عرفان صدیقی پر لکھے 
مضمون پر سید محمد اشرف کی راےء معین شاداب کی تحریر کو مزید معتبریت  عطا کرتی ہے ۔  معین شاداب کی 'عرض کیا ہے' میں  تحریر  کچھ اہم باتیں  پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں "اس کتاب سے ہمارے بہت سے اکابر مایوس ہو سکتے ہیں کہ اس میں بڑے لوگوں پر یا قدیم اور کلاسکی شعر وادب یا نسابی شعرا اور ادیبوں پر مضامین نہیں ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ بڑے ادیبوں اور بڑے ادب پر لکھ کر ہی کوئی قلمکار قابل اعتنا ہو سکتا ہے  ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس کلیشے  سے باہر آکر کہ کس پر لکھا گیا ہے ، یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا لکھا گیا ہے اور کیوں لکھا گیا ہے ۔ اسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوےء میری یہ تحریریں پڑھی جائیں اور کوئی نتیجہ اخذ کیا جاےء "۔ سچ جانئے تو مجھے کتاب کی اسی خوبی نے بہت متاثر کیا ۔  آپ  حضرات کتاب میں شامل مضامین پڑھیں گے تو اس کی خوبیاں جان سکیں گے ۔  336 صفحات کی اس کتاب کی قیمت صرف 300 روپیہ ہے ۔ کتاب کا سر ورق سادہ اور خوبصورت ہے اسے ایم آر پبلیکیشنز دہلی نے شائع کیا ہے ۔  شاعری اور مطالعہ سے شغف رکھنے والے ادیب اسے اپنی ذاتی
لائبریری میں ضرور رکھنا چاہیں گے ۔ بہت بہت مبارک معین شاداب جلد ہی آپکی دوسری اور تیسری کتاب دیکھنے کی خواہش میں نیک تمنائیں ۔
 
تحریر : ڈاکٹر نگار عظیم 

Recommended