عاصمہ شیرازی
صحافی
افغانستان اور خطے کی صورت حال دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ دائروں کا سفر قومی ہی نہیں خطے اور عالمی سطح پر بھی جاری ہے۔ خوف اور وسوسوں، خدشوں اور خطروں کا موسم پھر سے لوٹ آیا ہے۔ شدت اور انتہا پسندی، طاقت کے نتیجے میں مصلحت مزید خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ یہ دور خطے میں اور علاقائی سطح پر طاقت اور آمریت کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔
افغانستان میں طالبان آ نہیں رہے بلکہ آ چکے ہیں۔ کسی پُرانی فلم کا نیا سیکوئیل، پُرانی کتاب کے نئے ابواب اور پُرانی کہانی نئے کرداروں کے ساتھ منظر عام پر آ رہی ہے۔
شاہ محمود قریشی ان نئے کرداروں کو سمجھ دار، اہل اور معاملہ فہم قرار دے رہے ہیں۔ یہ مصلحت پسند بیانات پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کے کس حد تک ترجمان ہیں اس کو سمجھنے سے پہلے حقائق کو مدنظر رکھنا ہو گا۔
افغان طالبان نے ایک طرف اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا ہے تو دوسری جانب خطے کی طاقتوں کو مسلسل انگیج بھی کیا ہوا ہے۔ امریکی افواج کے انخلا نے طالبان کے حوصلوں کو بے پناہ مضبوط کر دیا ہے اور کیوں نہ ہو سُپر پاور کو ایک نامکمل ایجنڈے کے ساتھ افغانستان سے رُخصت کرنا ان کے لیے قابل تحسین تو ہے مگر طالبان سے نئے دور میں نئے تقاضوں کے مطابق توقعات باندھنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔
کابل فتح نہیں ہوا لیکن فتح ہونے کو رہ کیا گیا ہے۔ اس دوران طالبان کا ایرانی سرحد پر کنٹرول، پشتون علاقوں میں زور ایک نئی گیم کا از سر نو آغاز بھی ہے۔ ایران میں ہونے والے مذاکرات کسی نہ کسی انڈر سٹینڈنگ کی علامت ہیں جبکہ طالبان کے لیے واحد اور پوٹینشل چیلنج داعش کی صورت موجود ہے۔
اس معاملے پر ایران اور افغان طالبان ایک صفحے پر ہیں۔ خطے میں موجود یہ دو قوتیں کسی طور داعش کو پنپنے نہیں دیں گی جبکہ افغان طالبان کے تہران میں مذاکرات کے دوران انڈین وزیر خارجہ کی تہران آمد بہت سے پیغامات لیے ہوئے ہے۔
دوسری جانب چین، روس اور ایران افغانستان کے معاملے پر یکجا اپروچ اپنائے ہوئے ہیں۔ انڈین چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی نئے علاقائی نقشے پر اس قدرتی اتحاد کو درگزر نہیں کر سکتا۔ امریکہ کی نئی پیش بندی چین کے خلاف ہے تو خطے میں کون سی طاقت امریکہ کے ساتھ کھڑی ہو گی یہ بھی دیکھنا اہم ہو گا۔
یہ طے ہے کہ سب سے زیادہ جس ریاست پر بوجھ پڑے گا وہ پاکستان ہی ہے۔ پاکستان زمینی حقائق کے مطابق پالیسی ترتیب دے گا یا چند افراد کی خواہشات کو مدنظر رکھا جائے گا اس کا فیصلہ بھی جلد کرنا ہو گا۔
امریکہ کی لامحدود خواہشوں میں ہمارے پاس چند محدود آپشنز ہیں۔۔۔ ہم امریکہ سے کس حد تک تعاون کر سکیں گے؟ جانے والے تو گئے لیکن اختیار کی اس جنگ میں وہ اپنا اختیار مکمل چھوڑ بھی نہیں سکیں گے۔ کس کو کتنا حصہ ملے گا اور کون کس کی لڑائی لڑے گا یہ اب چند دنوں اور مہینوں کی بات رہ گئی ہے۔
ایک صفحے کی حکومت بھی ہو تو سیاسی جماعتیں عوامی خواہشات کے برخلاف نہیں جا سکتیں یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بظاہر امریکہ مخالف بیانات دے رہی ہے، عملی اقدامات کا وقت ابھی نہیں آیا۔۔ آئے گا تو دیکھا جائے گا کی پالیسی بہر حال نہیں چل سکتی۔
اس چومکھی لڑائی کے کئی سرے ہیں مگر اب تک کوئی سرا پکڑائی نہیں دے رہا۔ کووڈ کے بعد کی دُنیا آمریت اور پاکستان مزید آمریت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ خطے کے تقریباً تمام ممالک میں مطلق آلعنان طاقتیں برسر اقتدار ہیں۔
پاکستان میں بھی بظاہر نظام ایسا ہی ہے تاہم نئے تقاضے کچھ اور ہیں اور خطے میں امریکہ کو اپنی جنگ لڑنے کے لیے مزید طاقتور کردار چاہیں۔ خدشوں میں گھری عالمی سیاست حادثوں کو جنم نہ دے، بس یہی دُعا ہے۔