ملک سے بغاوت کے قانون کو آئینی طور پر چیلنج کرنے والی پٹیشن پر مرکز سے کیاجواب طلب
نئی دہلی، 15 جولائی (انڈیا نیرٹیو)
ملک سے بغاوت کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست کی سماعت کے دوران، چیف جسٹس این وی رمنا نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا آزادی کے 75 سال بعد بھی ملک سے بغاوت جیسے قانون کی ضرورت ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی برطانوی حکومت مہاتما گاندھی، تلک جیسے مجاہدین آزادی کی آوازکو دبانے کے لیے اس قانون کا استعمال کرتی تھی۔ کیا آزادی کے 75 سال گزر جانے کے بعد بھی ملک سے بغاوت کے قانون کی ضرورت ہے؟
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ملک سے غداری میں قصوروار ثابت ہونے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے، لیکن اگر پولیس یا حکومت چاہے تو وہ اس کے ذریعے کسی کو بھی پھنساسکتی ہے۔ ان سب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ یہ درخواست آرمی کے ریٹائرڈ میجر جنرل ایس جی بومبتکرے نے دائر کی ہے۔
سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے کہا کہ ملک سے بغاوت کے قانون کو واپس نہیں لیا جا نا چاہئے بلکہ اگر عدالت چا ہے تو نئی سخت ہدایات جاری کرسکتی ہے تاکہ یہ قانون صرف قومی مفاد میں استعمال ہو۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ12 جولائی کو عدالت نے ملک بغاوت کے قانون کے خلاف دائر دوسری درخواست پر سماعت ملتوی کردی تھی۔ سماعت کے دوران، مرکز کی جانب سے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال اور سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے اپنے جوابات داخل کرنے کے لئے وقت مانگا تھا۔ یہ درخواست منی پور میں مقیم صحافی کشورچندر وانگ کھیمچا اور چھتیس گڑھ میں مقیم صحافی کنہیالال شکل نے دائر کی ہے۔
درخواست گزار کی جانب سے پیشوکیل تنیما کشور نے کہا ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 124اے آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ یہ تمام شہریوں کو آزادی اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 1962 میں کیدارناتھ سنگھ بمقابلہ ریاست بہار کے معاملے میں، عدالت عظمی نے اس قانون کی لیگلتی کو خواہ برقرار رکھا تھا، لیکن اب ساٹھ سال کے وقفے کے بعد یہ قانون آئین کی کسوٹی پر پاس نہیں ہوتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ بھارت خود کو پوری جمہوری دنیا میں جمہوریت کہتا ہے۔ برطانیہ، آئرلینڈ، آسٹریلیا،کناڈا، گھانہ، نائیجیریا اور یوگانڈا نے بغاوت کو غیر جمہوری قرار دیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ دونوں درخواست گزار ذمہ دار صحافی ہیں۔ وہ متعلقہ ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان دونوں کے خلاف سوشل میڈیا پر کارٹون شیئر کرنے پر دفعہ 124 اے کے تحت ملک سے بغاوت کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔