برلن،16جولائی(انڈیا نیرٹیو)
افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ہی اس ملک میں امن و امان کی صورت حال مسلسل ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ان حالات میں جرمنی کو افغان مہاجرین کی ملک بدری روک دینی چاہیے؟
بدھ تیرہ جولائی کو افغان صوبے قندھار میں ایک سرحدی گزرگاہ پر طالبان نے افغان پرچم اتار کر اپنا جھنڈا لہرا دیا ہے۔ یہ ایک مثال ہے کہ بنیاد پرست سخت عقیدے کے طالبان ملک میں اپنا دائرہ اثر کس طرح پھیلاتے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ملک کا پچاسی فیصد حصہ اس وقت ان کے زیر اثر ہے۔
یہ بھی عام تاثر ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلا کے بعد طالبان عسکریت پسند اپنی کارروائیوں میں مزید تیزی لے آئیں گے۔گزشتہ ویک اینڈ پر کابل میں قائم افغان حکومت نے یورپی حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ وہ افغانستان میں سلامتی کی حالات اور کورونا وبا کے تناظر میں افغان مہاجرین کی ملک بدری کو کم از کم تین ماہ کے لیے معطل کر دیں۔
اس اپیل کے باوجود بعض یورپی حکومتیں افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان میں جرمنی بھی شامل ہے۔ ابھی سات جولائی کو جرمنی سے ستائیس افراد کو ایک پرواز کے ذریعے واپس افغانستان روانہ کیا گیا۔ ان میں زیادہ تر کا جرمنی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کا ریکارڈ موجود تھا۔ جرمنی سے واپس بھیجا جانے والا یہ چالیسواں گروپ تھا۔
جرمن پارلیمنٹ میں سب سے بڑے سیاسی گروپ یعنی دائیں جانب جھکاؤ رکھنے والی حکمران سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹ یونین (سی ڈی یو) اور اس کی حلیف جماعت کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) کے ڈپٹی چیئرمین تھورسٹن فرائی نے افغان حکومت کی مہاجرین کی واپسی کا عمل معطل کرنے کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک بدری کا سلسلہ روکنے کی بظاہر کوئی مضبوط بنیاد نہیں بنائی گئی ہے۔
فرائی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جرمنی کی وفاقی ریاستیں اپنی جگہ پر ا?زاد ہیں اور وہ وفاقی حکومت کی سفارش پر ملک بدریوں کو روکنے کی مجاز ہیں۔چند روز قبل جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا تھا کہ افغان مہاجرین کی واپسی تشدد بڑھنے کے باوجود صحیح سمت میں ہے۔ جرمنی سے افغان مہاجرین کی واپسی کا سلسہ سن 2016 سے جاری ہے اور اب تک ایک ہزار ایک سو چار افراد کو خصوصی پروازوں کے ذریعے کابل پہنچایا جا چکا ہے۔
افغانستان کی سلامتی کے حالات کے تناظر میں فن لینڈ افغان مہاجرین کی واپسی پر عمل درآمد روک چکا ہے۔ دوسری جانب ریفیوجی تنظیمیں دیگر یورپی اقوام کو فن لینڈ کی تقلید کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ ان تنظیموں نے جرمنی سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ سردست افغان مہاجرین کی واپسی کے سلسلے کو روک دے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے کیونکہ ان مہاجرین کا ملک جنگی حالات کا شکار ہے۔ ایمنسٹی سے وابستہ ایشیا کی انسانی حقوق کی ماہر تھریسا بیرگمان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی درخواست پر جرمن حکومت کو مثبت ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرگمان کا مزید کہنا ہے کہ جرمن قانون بھی یہی کہتا ہے کہ انسانی بنیادوں پر ملک بدری کو روکنا ممکن ہے۔